علی عمران وائس آف امریکہ اردو سے منسلک ہیں اور واشنگٹن ڈی سی سے رپورٹ کرتے ہیں۔
واشنگٹن میں جنوبی ایشیائی امور پر تحقیق کرنے والے زیادہ تر ماہرین مبینہ سائفر کی اشاعت کو پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر جاری داخلی کشمکش اور امریکہ اور پاکستان کے تعلقات پراس کے اثرات کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔
افغانستان میں طالبان کے تقریباً دوسال قبل اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کی عائد کردہ پابندیوں سے انسانی حقوق کی صورت حال اور لوگوں کی اقتصادی ترقی کے امکانات میں مزید گراوٹ دیکھی جارہی ہے جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت بین الااقوامی سطح پر عدم قبولیت سے کم ہی متاثر نظر آتی ہے۔
امریکہ نے بدھ کوایک بار پھر کہا کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی تبدیلی کے سلسلے میں امریکہ کے خلاف لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔ واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ نے یہ بھی کہا کہ امریکہ پاکستان یا کسی دوسرے ملک کے اندرونی سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔
پیرس میں مقیم پاکستانی، فرانسیسی سماجی کارکن تبسم سلیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فرانس کے بارے میں بین الااقوامی تاثرغلط ہے کہ ملک جان بوجھ کر ایک نظام کے تحت غیر فرانسیسی نژاد لوگوں سے امتیازی سلوک کرتا ہے۔ ان کے بقول، " فرانس نسل پرست ملک نہیں بلکہ حالیہ واقعات مجرمانہ نوعیت کے ہیں۔"
مبصرین کے مطابق ایک طرف تو چین کی روس سے یوکرین جنگ کے دوران دوستی سے عالمی سطح پر بیجنگ کی ساکھ کو حالیہ مہینوں میں ٹھیس پہنچی ہے اور دوسری طرف مغرب سے اس کے تعلقات میں کشیدگی آئی ہے۔ ایسے میں چین یہ سوچنے پر مجبور ہو سکتا ہے کہ کمزور ہوتے روس سے اس کے تعلقات کہیں بیجنگ کے لیے بوجھ نہ ثابت نہ ہوں۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے واشنگٹن کے دورے کے دوران امریکہ اور بھارت نے دفاع اور ٹیکنالوجی سمیت کئی شعبوں میں تعاون کے معاہدے کیے اور رہنماوں نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو اکیسوں صدی کی اہم ترین شراکت داری قرار دیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کاروباری شخصیات نے کہا کہ پاکستانی امریکی، اپنےوطن کی ترقی میں حصہ لینے کے خواہاں ہیں ۔ لیکن وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا پاکستان سیاسی عدم استحکام اور جمہوری اداروں کے فعال کردار میں فقدان کے وقت ایسے اقدامات اٹھانے کو تیار ہے جو سرمایہ کاری کو آسان بنا سکیں؟
پاکستانی میڈیا میں شائع ہونے والی ان خبروں نے تارکین وطن میں بے چینی سی پیدا کردی ہے کہ حکومت نے بیرون ملک مقیم تقریباً 500 پاکستانیوں کے خلاف نو مئی کو ہونے والے پر تشدد حملوں کے سلسلے میں قانونی چارہ جوئی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ حکومت یس کی تردید کرتی ہے
اس کتاب کی تقریب رونمائی مسلمز آف امریکہ اور رنگ محل نام کی تنظیموں کی مشترکہ میزبانی میں واشنگٹن کے مضافات میں ریاست میری لینڈ میں منعقد ہوئی۔ تارکینِ وطن نے پاکستان کو درپیش سیاسی کشیدگی اور اقتصادی چلینجز کے ماحول میں اس موقع کو تازہ ہوا کے ایک جھونکے سے تعبیر کیا۔
ماہرین اقتصادیات کے مطابق منصوبہ بندی کے تحت بہتر مواقع کی تلاش میں افراد اور خاندانوں کی امیگریشن کے کچھ فوائد بھی ہیں لیکن اچانک بڑی تعداد میں اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کا ملکی حالات کی وجہ سے بیرونِ ملک جانا پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز کو مزید گھمبیر کر سکتا ہے۔
بھارت کی کانرگریس پارٹی کے رہنما راہل گاندھی نے بھارت اور امریکہ کے تعلقات کو وسیع البنیاد بنانے پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ دونوں ممالک کو بھارت کو چین کے مقابلے میں ایک متبادل پیداواری ملک بنانے کے بارے میں بات چیت کرنی چاہیے۔
پروفیسر حسن عباس موجودہ افغان طالبان کو اعتدال پسند قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ طالبان نے کابل پر قبضہ کرتے وقت اس بات کی احتیاط کی کہ انفراسٹرکچر اور اداروں کو تباہ نہ کیا جائے۔ انہوں نے افغانستان کی گزشتہ سیاسی حکومت کے ساٹھ فیصد ملازمین کو حکومت میں برقرار رکھا۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے ماہرین کے مطابق آرٹیفیشل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی کا بروقت استعمال ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے ممالک کے لیے مجموعی پیداواری صلاحیت کو بڑھا کر انہیں معاشی ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اپنے اندرونی اقتصادی اور سیاسی چیلنجز پر قابو پاکر استحکام پیدا کرنا ہے کیونکہ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کا دارو مدار براہ راست اس کی اندرونی صحت پر منحصر ہوتا ہے
پاکستان میں مہنگائی کی وجہ سے مڈل کلاس کی تعداد پانچ کروڑ30 لاکھ سے کم ہو کر محض دو کروڑ رہ گئی ہے،بلند قیمتوں نے غربت میں اضافہ کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے ملک میں مالی اصلاحات کے حوالے سے کہا ہے کہ پاکستان میں اقتصادی پالیسیوں پر کامیابی سے عمل درآمد کے لیے وسیع تر عوامی حمایت کی ضرورت ہو گی۔
واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے تجزیہ کار ڈائریکٹر مارون وائن بام کہتے ہیں کہ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلیشمنٹ عمران خان کی سیاست کو زیادہ دیر تک عدم استحکام پھیلانے نہیں دے سکتی تھی لیکن جس انداز سے انہیں پکڑا گیا ہے اس سے بہت سے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔
مبصرین کے مطابق سب سے بڑا فرق اس مقدمے اور ٹرمپ کی شخصیت کے بارے میں پارٹی سوچ کے مطابق بیانیوں میں نظر آتا ہے۔ اس مقدمے کے ممکنہ اثرات کو جاننے کے لیے وائس آف امریکہ نے نمایاں پاکستانی امریکی سیاست دانوں سے بات کی۔
واشنگٹن میں قائم تحقیقی ادارے پولیٹیکٹ کے تجزیہ نگار عارف انصار کہتے ہیں کہ یوکرین جنگ سے پاکستان کے لیے مشکلات اسی وقت شروع ہوگئیں جب اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے روسی صدر پوٹن سے ماسکو میں جنگ کے پہلے روز ملاقات کی۔
دونوں ممالک میں 1990 کی دہائی میں پیدا ہونے والی دوری کے تناظر میں کیمپ ڈیوڈ میں گہرے ہوتے دو طرفہ تعاون کو سفارتی سطح پر حالیہ تاریخ میں پاک امریکہ تعلقات کا نقطہ عروج کہا جاتا ہے۔
واشنگٹن میں مقیم پاکستان کے عسکری امور کے ماہ شجاع نواز کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو نہ صرف شفاف انداز سے اپنی ذمہ داریا ں نبھانا ہوں گی بلکہ اپنے آپ کو احتساب کے لیے بھی پیش کرنا ہوگا تاکہ ملک گھمبیر چیلنجز کا موثر انداز سے مقابلہ کر سکے۔
مزید لوڈ کریں