رسائی کے لنکس

'گاندھی اور جناح کے ہم آہنگی کے پیغامات کی آج پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے'


بھارت اور پاکستان میں لوگوں کو بہت بڑی تعداد دونوں ملکوں کو بانیوں موہن داس گاندھی اور محمد علی جناح کی امن اور عوام کی مساوی بہتری کی تعلیمات سے آخر اتنے دور کیوں ہیں جب کہ جدو جہد آزادی کے دوران برصغیر کے عوام نے ان رہنماؤں کی بڑے پیمانے پر پذیرائی کی تھی؟
اور پھر یہ کہ تمام لوگوں کے، خاص طور پر اقلیتوں کے مساوی حقوق اور ان کی حقیقی آزادی کے خواب جو دونوں رہنماؤں نے دیکھے تھے، وہ تعبیر سے اتنے دور کیوں ہیں؟
اس طرح کے کئی سوالات ایک بار پھر اس مہینے کی 21 اور 22 تاریخ کو واشنگٹن کی امیریکن یونیورسٹی میں اسٹیج کیے جانے والے انگریزی میں لکھے گئے ڈرامے ’گاندھی اینڈ جناح ریٹرن ہوم‘ میں اٹھائے گئے ہیں۔
ڈرامہ نویس اور امیریکن یونیورسٹی میں اسلامی تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر اکبر احمد کہتے ہیں، "میں سمجھتا ہوں کہ آج پہلے سے کہیں زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ بھارت اور پاکستان کو یاد کرایا جائے کہ ان کے بانی رہنما برطانوی تسلط سے 1947 میں آزادی سے قبل تقسیم کے معاملے پر اختلافات کے باوجود عوا م کی بہتری، اور کمیونیٹیز کے درمیان ہم آہنگی اور امن چاہتے تھے۔"
اکبر احمد نے، جو سابق سفارت کار بھی ہیں، وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں کہا کہ خاص طور پر ان لوگوں کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے جو لوگوں کو تقسیم کرنے اور نفرت کے ایجنڈے پر کام کرتے ہیں کہ گاندھی اور جناح دونوں ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔
ڈرامہ نگار ڈاکٹر اکبر احمد اور اداکار فرحان بھابا جنہوں نے گاندھی اور جناح ریٹرن ہوم میں پاکستان کے بانی محمد علی جناح کا کردار ادا کیا ہے۔
ڈرامہ نگار ڈاکٹر اکبر احمد اور اداکار فرحان بھابا جنہوں نے گاندھی اور جناح ریٹرن ہوم میں پاکستان کے بانی محمد علی جناح کا کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گاندھی، جناح کو ہمیشہ قائد اعظم کہتے تھے اور جناح نے گاندھی کے قتل کے بعد ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کی موت سے بھارت کے مسلمانوں نے ایک بڑا ہمدرد کھو دیا ہے۔
لیکن جہاں منجھے ہوئے بھارتی اور پاکستانی اداکاروں کے ذریعہ ڈرامہ امن کا پیغام دیتا ہے وہیں انتہائی دلچسپ ڈائیلاگ گاندھی اور جناح کے اختلافات کو بھی اجاگر کرتے ہیں ۔یوں ان کی شخصیات کی جامع تصویر کشی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ڈرامہ نویس نے دو مختلف ادوار یعنی جدوجہد آزادی کے دن اور عصر حاضر کے چیلنجز کو اجاگر کرنے کے لیے آج کے حالات پر بھی نظر ڈالی ہے جو مختلف کردار آج کے مسائل پر بات اور جرح کے ذریعے بیان کرتے ہیں۔

برطانیہ کے اس وقت کے وزیر اعظم اور اس دور کے اہم سیاست دان ونسٹن چرچل کا کردار بھی اس وقت کے حالات، ان کے بھارتی لوگوں کے بارے میں خیالات اور برطانوی سوچ پر روشنی ڈالتا ہے۔

اس سوال پر کہ جنوبی ایشیا کے اس اہم موضوع پر یہ ڈرامہ تو انگریزی میں تحریر اور اسٹیج کیاجا رہا جب کہ بھارت اور پاکستان کے عوام اسے اپنی زبانوں میں دیکھنا چاہیں گے، اکبر احمد کہتے ہیں کہ ان کی یہ کوشش ہوگی کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعہ اس کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے اور ان کی یہ خواہش بھی ہے کہ اس کا جنوبی ایشیا کی زبانوں میں ترجمہ کرکے پیش کیا جائے۔

گاندھی کا کردار بھارتی امریکی اداکار سری مراجکر اکر ادار کررہے ہیں جب کہ محمد علی جناح کا کردار پاکستانی امریکی فرحان بھابا کے حصے میں آیا ہے۔

پروفیسر اکبر احمد کے تحریر کردہ اور منجلا کمار کی ہدایت کاری میں بننے والے ڈرامے "گاندھی اور جناح ریٹرن ہوم" میں بھارتی امریکی اداکار سری مراجکر نے گاندھی کا کردار ادا کیا۔
پروفیسر اکبر احمد کے تحریر کردہ اور منجلا کمار کی ہدایت کاری میں بننے والے ڈرامے "گاندھی اور جناح ریٹرن ہوم" میں بھارتی امریکی اداکار سری مراجکر نے گاندھی کا کردار ادا کیا۔

ڈرامے کی ڈائریکٹر اور واشنگٹن ڈی سی کے اسمتھ سونین انسٹی ٹیوٹ کی سابقہ آرٹ ڈائریکٹر منجلا کمار کہتی ہیں کہ اس ڈرامے کو ڈائریکٹ کرتے ہوئے بہت سےپہلو سامنے آئے ہیں۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا، ایک تو یہ کہ اس ڈرامے کے کردار تاریخ کی اہم ترین شخصیات میں شامل ہیں۔ لہذا ان کے درمیان ہونے والے ڈائیلاگ آج بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ہر نسل کو اور خاص طور پر آج کی نسل کو مبہم کر دیے گئے حقائق جاننے کی بہت ضرورت ہے۔"

وہ کہتی ہیں کہ ان کے لیے ایک بڑا چیلنج یہ تھا کہ کس طرح واشنگٹن کے مختلف ثقافتوں اور مذاہب کے لوگوں پر مشتمل سینکڑوں ناظرین کی اس کی پرفارمنس کے دوران توجہ برقرار رکھی جائے اور اس ڈرامے کا مرکزی خیال بھی بتایا جائے۔

"اس ڈرامے کو واشنگٹن میں اسٹیج کرنے کی بہت اہمیت ہے ۔ کیونکہ میں اسے بھارت، پاکستان اور امریکہ کی ٹرائنگل کے طور پر دیکھتی ہوں۔ اس لیے بھارت اور پاکستان کے مسائل پر واشنگٹن میں گفتگو اور بحث بہت اہم ہے۔"

منجلہ کمار کہتی ہیں کہ ڈرامے میں بانی پاکستان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح، گاندھی کی شریک حیات قسطوربہ گاندھی اور ونسٹن چرچل کی شریک حیات کلیمینٹائن چرچل کے کردار کو بھی غور سے سمجھنا چاہیے کیوں کہ انہوں نے ثابت کیا کہ خواتین اتنے بڑے تاریخی موڑ پر مضبوط کردار ادا کرسکتی ہیں۔

ڈرامہ گاندھی اینڈ جناح ریٹرن ہوم کی ہدایت کارہ منجلا کمار
ڈرامہ گاندھی اینڈ جناح ریٹرن ہوم کی ہدایت کارہ منجلا کمار

منجلہ کمار کہتی ہیں کہ ڈرامے کی کاسٹ میں کئی مذاہب کے لوگ ہیں جن میں مسلمان، ہندو، عیسائی، سکھ اور یہودی شامل ہیں۔

" بھارتی ہونے کے ناطے میرے لیے یہ تنوع اس بات کو ظاہر کرتا کہ بھارت میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ لیکن آج کل کے منقسم حالات میں اس قسم کی سوچ پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ ٘محض اس لیے کہ بھارت اقتصادی ترقی کر رہاہے تو ہمیں اس کی وداس اور راماین جیسی بڑی تہذیبوں کی اقدار چھوڑ دینی چاہیں درست نہیں ہے۔"

ڈاکٹر اکبر احمد نے تاریخی پس منظر اور موجودہ تناظر کو بیان کرنے کے لیے کئی حوالے سے ڈائیلاگ اور سیاسی شخصیات اور ان کے کردار اور کشمیر جیسے مسئلے پر بھی بات کی ہے۔

ڈرامے میں شدید جذباتی ڈائیلاگ بھی شامل ہیں۔ علامہ اقبال کے شعر" سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا" کا بھی ذکر ہے جسے ہر بھارتی فخر سے گاتا ہے۔

ڈاکٹر اکبر کہتے ہیں ڈرامے کے دوسرے پہلوؤں کے علاوہ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ شاید امریکی تھیٹر میں پہلی بار محمد علی جناح کی شخصیت کے بہت سے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے۔

"آج کے تناظر میں جب کہ پاکستان کو انسانی حقوق کی پامالی اور جمہوریت کی تنزلی کے باعث دنیا میں تنقید کا سامنا ہے، اس کے بانی کی قائدانہ صلاحیتوں کو بیان کرنا ملک کے لیے ایک مثبت بات ہے۔ "

XS
SM
MD
LG