رسائی کے لنکس

رضی احمد رضوی؛ پاکستان کی تاریخ کے ایک 'خاموش' عینی شاہد


رضی صاحب نے امریکہ میں 40 سال گزارے۔ کئی ملکوں کا سفر کیا۔ لیکن ان کا دل پاکستان میں ہی لگا رہتا تھا۔
رضی صاحب نے امریکہ میں 40 سال گزارے۔ کئی ملکوں کا سفر کیا۔ لیکن ان کا دل پاکستان میں ہی لگا رہتا تھا۔

"عمیر صاحب، ہم کراچی میں ہیں۔ پیر کو دن 11 بجے چلے آئیے۔ پھر گپ لگائیں گے۔"

رضی صاحب کا فون پر حکم تھا۔ میں نے سوال کیا کہ کب پہنچے؟ انہوں نے بتایا ایک مہینہ ہونے کو آ رہا ہے اور دو دن بعد اسلام آباد روانگی ہے۔ میں نے مصنوعی خفگی کا اظہار کیا کہ اتنی دیر سے کیوں بتا رہے ہیں۔ کہنے لگے کہ بس آتے ہی بیمار پڑ گیا تھا۔

وقتِ مقررہ پر ہمارے رفیق کار تنزیل الرحمٰن اور میں ان سے ملنے پہنچ گئے۔ وہ اپنے بھتیجے کے ہاں مقیم تھے۔ رضی صاحب نے صوفے سے اٹھ کر گلے لگایا۔ کم زور تو لگے لیکن یہ گمان نہیں تھا کہ اس ملاقات کے محض 15 دن بعد ان کے دنیا سے رخصت ہونے کی خبر ملے گی۔

بہت دیر گپ شپ ہوئی۔ زیادہ وقت کراچی کی 'بربادی' پر تاسف کا اظہار اور پرانے کراچی کو یاد کرتے رہے۔ ملاقات کے دوران ملازم نے انہیں اطلاع دی کہ دوسرے مہمان انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے نظر انداز کر دیا اور باتوں میں لگے رہے۔ کہنے لگے اسلام آباد میں بھی ایک ماہ قیام ہے لیکن جانے کا بالکل دل نہیں چاہ رہا۔ اب گھر یاد آ رہا ہے۔

میں نے یاد دلایا کہ مہمان انتظار کر رہے ہیں تو اسے بھی نظر انداز کر گئے۔ جب ہم نے رخصت کی اجازت چاہی تو بمشکل صوفے سے اٹھے۔ میں نے کہا تسنیم آپا (ان کی اہلیہ) کو بھی سلام کرتے چلتے ہیں۔ ہمارے ساتھ پائیں باغ میں آئے اور جب ہم نے سلام دعا کے بعد اجازت چاہی تو انہوں نے کہا ابھی کہاں، بیٹھیے۔ اور ملازم کو کرسیاں لانے کا اشارہ کیا۔ ہم پھر بیٹھ گئے اور وہ مہمانوں سے سلام دعا کے بعد پھر ہمی سے گفتگو میں مصروف ہو گئے۔

رضی احمد رضوی صاحب سے میرا پہلا تعارف فون پر ہوا تھا۔ سن 2010 میں کراچی میں میری ہائرنگ کے کچھ ہی عرصے بعد مجھے ریڈیو کے اسائنمنٹ ملنے لگے تو ریڈیو سروس کے دیگر سینئرز کے ساتھ ساتھ ان سے بھی فون پر بات ہونے لگی۔

وہ وائس آف امریکہ اردو سروس کے ریڈیو کے شعبے کے مینیجنگ ایڈیٹر تھے اور 2022 میں اپنی ریٹائرمنٹ تک اسی ذمے داری پر رہے۔ فون پر بہت محتاط اور لیے دیے انداز میں گفتگو کرتے تھے۔ لیکن لہجہ ہمیشہ نرم ہوتا تھا اور ہمیشہ کچھ نہ کچھ سمجھانے یا کسی غلطی کی تصحیح کرنے کے لیے ہی فون کرتے تھے۔

سال 2016 میں وائس آف امریکہ کے واشنگٹن ڈی سی میں واقع صدر دفتر میں ایک سال کام کرنے کا موقع ملا تو وہاں پہنچتے ہی رضی صاحب سے دوستی ہوگئی۔ اندازہ ہوا کہ اپنی محتاط اور کم گو طبیعت کے باوجود وہ ایک ہم درد اور بہت محبت کرنے والے شخص ہیں۔ جلد ہی ان کی طرف سے کافی پینے کی دعوت ملنے لگی۔ وہ دن میں کم از کم ایک بار دفتر کے سامنے موجود مک ڈونلڈز سے کافی لینے جاتے تھے۔ وہاں سینئر سٹیزنز کو کافی 50 سینٹ کی ملتی تھی۔ وہ کافی کی دعوت دینے جب بھی میری ڈیسک پر آتے، جعفری صاحب آواز لگاتے، "ہاں بھئی، آٹھ آنے کی کافی پلانے لے جا رہے ہو۔"

رضی صاحب کا آبائی تعلق متحدہ ہندوستان کے صوبے بہار کے تاریخی شہر گیا سے تھا۔ روایت ہے کہ مہاتما بودھ کو نروان اسی علاقے میں ملا تھا۔ شاید اس سرزمین کا ہی اثر تھا کہ رضی صاحب انتہائی صلح جو طبیعت کے مالک تھے۔ میں نے انہیں کبھی کسی سے الجھتے یا اونچی آواز میں بات کرتے نہیں دیکھا۔

ان کی ابتدائی زندگی مشرقی پاکستان میں گزری۔ بنگال کی محبت ان میں رچی بسی تھی اور وہ اسے ہمیشہ محبت سے یاد کرتے تھے۔ شاید اسی محبت کی وجہ سے وائس آف امریکہ کی بنگلہ سروس کے سینئر صحافیوں سے ان کی اچھی دوستی تھی۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد رضی صاحب نے ڈھاکہ میں پاکستان پریس انٹرنیشنل (پی پی آئی) سے اپنے صحافتی کریئر کا آغاز کیا۔ انہوں نے 1967 میں پاکستان ٹیلی ویژن کا ذیلی ادارہ ایشین ٹیلی ویژن سروس جوائن کیا۔ سال 1970 میں انہوں نے پی ٹی وی کے کراچی سینٹر میں سینئر نیوز پروڈیوسر کی ذمے داریاں سنبھالیں۔ خود ان کے بقول وہ محض ڈیڑھ سال کراچی میں رہے اور اس دوران ان کا قیام نارتھ ناظم آباد بلاک جے میں اپنے بڑے بھائی کے گھر ہوتا تھا۔ لیکن وہ اپنی آخری عمر تک اس دور کے کراچی کو یاد کرتے تھے۔

سال 1972 میں ان کا تبادلہ اسلام آباد ہو گیا۔ پی ٹی وی میں وہ کنٹرولر نیوز سمیت کئی اہم ذمے داریوں پر رہے۔ جولائی 1985 میں وہ وائس آف امریکہ کی اردو سروس سے منسلک ہو کر واشنگٹن ڈی سی آ گئے جہاں سے 37 برس کی طویل سروس کے بعد 2022 میں ریٹائر ہوئے۔

اپنا تقریباً پورا صحافتی کریئر ان دو سرکاری اداروں میں گزارنے کی وجہ سے ان کی طبیعت میں ایک ٹھیراؤ اور احتیاط پیدا ہو گئی تھی جسے صرف سرکاری نشریاتی اداروں کے مزاج آشنا صحافی ہی سمجھ سکتے ہیں۔ وہ 1970 کی دہائی میں پاکستان کی سیاست کے کئی اہم ترین واقعات کے عینی شاہد تھے۔ رضی صاحب نے اس دور کےبڑے سیاست دانوں اور شخصیات کو قریب سے دیکھا تھا۔

مشرقی پاکستان میں مارچ 1971 میں ہونے والے فوجی آپریشن کے فوراً بعد ذوالفقار علی بھٹو کا مشہور جملہ "شکر ہے کہ پاکستان بچ گیا" کے مخاطب رضی صاحب ہی تھے جو ڈھاکہ سے کراچی پہنچنے والے بھٹو کے انٹرویو کے لیے پی ٹی وی کے نمائندے کے طور پر ایئرپورٹ کے ٹارمک پر کھڑے تھے۔ وہ ایسے کئی واقعات نجی محفلوں اور ملاقاتوں میں سنایا کرتے تھے۔ لیکن انہیں کبھی قلم بند کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ میں نے انہیں قائل کرنے کی بہت کوشش کی کہ وہ اپنی یادداشتیں لکھیں یا کم از کم مجھے ڈکٹیٹ کرادیں۔ لیکن وہ ہمیشہ ٹال جاتے۔

اگر کبھی خالد حمید صاحب اور رضی صاحب کو فرصت سے مل بیٹھنے کا موقع ملتا تو پی ٹی وی کے آغاز اور اس کے ابتدائی برسوں کی یادوں اور دلچسپ واقعات کی پٹاری کھل جاتی۔ رضی صاحب ادب کا عمدہ ذوق رکھتے تھے اور جب تک ان کی صحت نے اجازت دی، وہ واشنگٹن ڈی سی اور اس کے مضافات میں ہونے والی ادبی تقریبات اور مشاعروں میں شریک ہوتے رہے۔ وائس آف امریکہ سے ریٹائر ہوجانے والے اپنے رفقائے کار سے مستقل رابطے میں رہتے اور جب پاکستان آتے، اپنے دور کے پی ٹی وی کے ساتھیوں سے ضرور ملتے۔

رضی صاحب نے امریکہ میں 40 سال گزارے۔ کئی ملکوں کا سفر کیا۔ لیکن ان کا دل پاکستان میں ہی لگا رہتا تھا۔ اپنے خاندان کے بہت قریب تھے اور ہر کچھ برسوں بعد اپنے احباب سے ملنے پاکستان ضرور آتے۔ بیرونِ ملک مقیم اکثر پاکستانیوں کی طرح صرف ملک کے حالات پر کڑھتے ہی نہیں تھے بلکہ کئی فلاحی اداروں اور مشکل میں گھرے واقف کاروں کی خاموشی سے دادرسی کیا کرتے تھے۔

سروس میں ان سے سب سے زیادہ بے تکلف قمر عباس جعفری صاحب تھے۔ جعفری صاحب سروس کے واحد شخص تھے جو انہیں "یار رضی" کہہ کر پکارتے۔ باقی تمام لوگوں کے لیے وہ رضی صاحب تھے۔ جعفری صاحب ان پر آتے جاتے جملے کستے اور وہ جواباً صرف مسکراتے۔

میں جب واشنگٹن ڈی سی پہنچا تو پتا چلا کہ سروس میں ان کی سب سے زیادہ دوستی اسد نذیر صاحب کے ساتھ ہے۔ رضی صاحب کے شیشے کے کمرے میں ہفتے میں کم از کم ایک بار دونوں کی نشست ضرور ہوتی تھی جس کے موضوعات کے بارے میں میرا اندازہ یہ تھا کہ دونوں حضرات دفتر کے باقی ساتھیوں کے متعلق اپنے نوٹس ایکسیچینج کرتے ہیں۔ ان دونوں صاحبان کی دوستی اور رابطہ رضی صاحب کے آخری دنوں تک قائم رہا۔

سروس میں آنے والی انتظامی تبدیلیوں اور ملازمت کے بڑھتے تقاضوں کے باعث رضی صاحب نے کووڈ سے قبل ہی ریٹائرمنٹ کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا تھا۔ ان سے جب فون پر بات ہوتی، وہ یہی کہتے کہ بس اب وقت آ گیا ہے۔ لیکن اسد صاحب کہتے ہیں کہ بیٹھے رہیے۔ اب تو پھل کھانے کا وقت آیا ہے۔ پھر جب کووڈ کے دوران ریڈیو سروس بند کرنے کا فیصلہ ہوا تو رضی صاحب نے ریٹائرمنٹ لینے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔

دراز قامت رضی صاحب خوش لباس آدمی تھے۔ دفتر ہمیشہ فل سوٹ میں خود ڈرائیو کر کے آتے۔ صبح 10 بجے دفتر پہنچتے اور شام چھ بجے کے بعد گھر روانہ ہوتے۔ اردو سروس کے بیشتر ساتھیوں کی چھٹی پانچ بجے تک ہوجاتی تھی۔ پانچ بجے کے بعد دفتر میں رضی صاحب، خلیل بگھیو صاحب اور خاکسار ہی بچتے تھے۔ عموماً وہ اپنا کام ختم کرچکے ہوتے تو ان سے گپ شپ ہوتی۔ کبھی کبھار وہ نیشنل مال پر واک کے لیے جاتے تو میں ساتھ ہو لیتا اور واک کے دوران کرید کرید کر ان کے کریئر کے دلچسپ واقعات سنتا۔ بعض اوقات ہمارے ساتھ ہمارے ریڈیو کے آنجہانی کولیگ انجم ہیرلڈ گِل بھی ہوتے جنہیں اکثر اپنے ورکنگ آورز پورے کرنے کے لیے چھٹی کے بعد بھی دفتر میں بیٹھنا پڑتا تھا۔

گزشتہ ماہ کراچی میں ہونے والی ملاقات کے اختتام پر اٹھتے اٹھتے رضی صاحب نے کہا تھا کہ بھئی اب رابطے میں رہیے گا۔ کم از کم میسجز پر تو حال احوال کرتے رہا کیجیے۔ میں نے شرمندہ ہوتے ہوئے انہیں یقین دلایا تھا کہ اب مستقل رابطہ رہے گا۔ ملاقات کے اختتام پر تسنیم آپا ان کے ساتھ تنزیل اور میری تصویر کھینچنے لگیں تو رضی صاحب نے کہا کہ یہ اسد نذیر صاحب کو بھیج دیجیے گا۔ ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے یہ تصویر اسد صاحب کو واٹس ایپ کر دی۔ ان کا جواب آیا: "رضی صاحب کو میرا سلام کہنا۔ ان کو خوش و خرم دیکھ کر خوشی ہوئی، اب ان کو وہیں روک لو۔"

اسد صاحب! ہم نے رضی صاحب کو یہیں روک لیا ہے۔ اب وہ سدا اسی مٹی میں رہیں گے جس کی مہک سات سمندر پار سے انہیں اپنی جانب کھینچتی تھی۔

فورم

XS
SM
MD
LG