علی عمران وائس آف امریکہ اردو سے منسلک ہیں اور واشنگٹن ڈی سی سے رپورٹ کرتے ہیں۔
امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اپنے اندرونی اقتصادی اور سیاسی چیلنجز پر قابو پاکر استحکام پیدا کرنا ہے کیونکہ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کا دارو مدار براہ راست اس کی اندرونی صحت پر منحصر ہوتا ہے
پاکستان میں مہنگائی کی وجہ سے مڈل کلاس کی تعداد پانچ کروڑ30 لاکھ سے کم ہو کر محض دو کروڑ رہ گئی ہے،بلند قیمتوں نے غربت میں اضافہ کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے ملک میں مالی اصلاحات کے حوالے سے کہا ہے کہ پاکستان میں اقتصادی پالیسیوں پر کامیابی سے عمل درآمد کے لیے وسیع تر عوامی حمایت کی ضرورت ہو گی۔
واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے تجزیہ کار ڈائریکٹر مارون وائن بام کہتے ہیں کہ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلیشمنٹ عمران خان کی سیاست کو زیادہ دیر تک عدم استحکام پھیلانے نہیں دے سکتی تھی لیکن جس انداز سے انہیں پکڑا گیا ہے اس سے بہت سے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔
مبصرین کے مطابق سب سے بڑا فرق اس مقدمے اور ٹرمپ کی شخصیت کے بارے میں پارٹی سوچ کے مطابق بیانیوں میں نظر آتا ہے۔ اس مقدمے کے ممکنہ اثرات کو جاننے کے لیے وائس آف امریکہ نے نمایاں پاکستانی امریکی سیاست دانوں سے بات کی۔
واشنگٹن میں قائم تحقیقی ادارے پولیٹیکٹ کے تجزیہ نگار عارف انصار کہتے ہیں کہ یوکرین جنگ سے پاکستان کے لیے مشکلات اسی وقت شروع ہوگئیں جب اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے روسی صدر پوٹن سے ماسکو میں جنگ کے پہلے روز ملاقات کی۔
دونوں ممالک میں 1990 کی دہائی میں پیدا ہونے والی دوری کے تناظر میں کیمپ ڈیوڈ میں گہرے ہوتے دو طرفہ تعاون کو سفارتی سطح پر حالیہ تاریخ میں پاک امریکہ تعلقات کا نقطہ عروج کہا جاتا ہے۔
واشنگٹن میں مقیم پاکستان کے عسکری امور کے ماہ شجاع نواز کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو نہ صرف شفاف انداز سے اپنی ذمہ داریا ں نبھانا ہوں گی بلکہ اپنے آپ کو احتساب کے لیے بھی پیش کرنا ہوگا تاکہ ملک گھمبیر چیلنجز کا موثر انداز سے مقابلہ کر سکے۔
ٹامس نکلسن نے کہا کہ خطے سمیت دنیا کے بہت سے ممالک سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں جہاں، گزشتہ سال سے طالبان ملک کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں، ابھی تک ایسی مشمولہ حکومت یعنی تمام فریقوں کی نمائندگی رکھنے والی حکومت کا قیام عمل میں نہیں آیا ہے۔
سعودی عرب سمیت تیل پیدا کرنےوالےممالک کی طرف سے روس کے ساتھ مشاوت کے بعد پیداوار میں کمی سےامریکہ میں توانائی کی قیمتوں میں اضافہ متوقع ہے اس فیصلے سے واشنگٹن اور ریاض کے تعلقات کو بھی دھچکا لگنے کا اندیشہ ہے، واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک میں منعقدہ مذاکرے پر مبنی رپورٹ
"ہمیں ایک نہیں بلکہ کئی قسم کے وائرسوں کا سامنا ہے۔ امریکی معاشرہ ابھی تک نسل پرستی سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکا کہ دنیا میں ایک ہی وقت میں ہونے والے کئی بحرانوں نے ہمیں آلیا ہے"۔
تھنک ٹینک کونسل آن فارن ریلیشنز کے پلیٹ فارم سے ایک گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ دنیا کو اس وقت کئی طرح کے خطرات کا سامنا ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے پریس بریفنگ میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ امریکہ اس سلسلے میں اپنے خدشات کو پاکستانی حکام سے معمول کے مطابق اٹھاتا ہے۔
امریکہ اور پاکستان نائن الیون کے بعد لگ بھگ ایک دہائی تک قریبی حلیف رہے، لیکن اس دوران بھی دونوں ملکوں کے اسٹرٹیجک تعلقات میں اُتار چڑھاؤ آتے رہے۔
کتاب میں مصنفین نے خبردار کیا ہے کہ اگر عدم مساوات پر قابو نہ پایا گیا تو آنے والے برسوں میں کئی معاشرے غیر فعال ہو جائیں گے۔
واشنگٹن کے تعلیمی اور تحقیقاتی ادارے بروکنگز انسٹی ٹیوشن نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ چین کے کردار کے حوالے سے قیاس آرائیاں بڑھ رہی ہیں کہ بیجنگ امریکی انخلاء سے پیدا ہونے والے طاقت کے خلا سے افغانستان میں سرمایہ کاری کے ذریعے فائدہ اٹھائے گا۔
وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے وائس آف امریکہ کے پروگرام میں کہا کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے میں پاکستان کا کردار کم سے کم ہے جبکہ ملک بڑے ملکوں کی جانب سے پیدا کی گئی ماحولیاتی آلودگی کی قیمت ادار کر رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق افغان عوام کو درپیش مسائل مزید گھمبیر ہوگئے ہیں اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنا اور عالمی اداروں کی طرف سے انسان دوست امداد میں کمی کے چیلنجز نے افغان شہریوں کے لیے مصائب میں اضافہ کردیا ہے۔
مزید لوڈ کریں