رسائی کے لنکس

’وائرس بم‘ پاکستانی مصنف کا نیویارک میں سٹیج ڈرامہ، آمدنی سیلاب زدگان کے لیے وقف


وائرس بم ڈرامے کی ریہرسل کے دوران لی گئی ایک تصویر ۔ بشکریہ ممتاز حسین
وائرس بم ڈرامے کی ریہرسل کے دوران لی گئی ایک تصویر ۔ بشکریہ ممتاز حسین

ممتازحسین نیویارک میں مقیم پاکستانی امریکی مصنف ہیں جن کا نیا ڈامہ بظاہر کرونا وائرس کے بحران کے بارے میں ایک طنزیہ تحریر ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ 22اکتوبر کو اسٹیج ہونے والا یہ ڈرامہ سامعین کے ذہنوں میں بہت سے سوال منتقل کرنے کی ایک کوشش بھی ہے۔

"ہمیں ایک نہیں بلکہ کئی قسم کے وائرسوں کا سامنا ہے۔ امریکی معاشرہ ابھی تک نسل پرستی سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکا کہ دنیا میں ایک ہی وقت میں ہونے والے کئی بحرانوں نے ہمیں آلیا ہے"۔

ممتاز حسین نے انگریزی میں لکھے گئے اپنے ڈرامے کے متعلق کچھ تفصیل وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بیان کی۔

'وائرس بم' کے نام سے لکھا گیا ان کا ڈرامہ کرونا وائرس سے شدید متاثر ہونے والے ملک امریکہ اور منقسم دنیا پر ایک تنقید ہے جس کا مقصد اشرافیہ کو انسانی اقدار یاد دلانا ہے۔ ڈرامے کے کردار کرونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بارے میں سازشی مفروضوں، سائنسدانوں کے گھمنڈ، انسانی المیے اور غیریقینی حال میں ایک روشن مستقبل کی تلاش جیسے مختلف مو ضوعات پرنپے تلے زاویے سے بات کرتے ہیں۔

ڈرامے کا مرکزی کردار ایک سفید فام حاملہ خاتون ہیں جن کا شوہر کووڈ نائٹین کا شکار ہو چکا ہے اور وہ اپنے بچے کو ، جو ابھی دنیا میں نہیں آیا، ہر حال میں اس وبا سے بچانا چاہتی ہیں۔ خاتون کا امریکہ کی اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں، خصوصاً سیاہ فام اور نیٹو امریکن یعنی قدیم امریکیوں سے سامنا ہوتا ہے۔ ان کے درمیان ہونے والے مکالمے ماضی کے دلخراش پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں۔

ڈرامے میں رقص کی ریہرسل کے دوران لی گئی تصویر
ڈرامے میں رقص کی ریہرسل کے دوران لی گئی تصویر

اس کے بعد خاتون اقوام متحدہ کے سفارت کاروں اور سائنسدانوں سے بحث و مباحثے کرتی ہیں اور ان کی بے حسی اور انسانی اقدار سے دوری کو طنز اور تنقید کانشانہ بناتی ہیں۔ عوام اور دنیا کے مسائل سے اشرافیہ کی لاپرواہی اور دوری انہیں مایوس کردیتی ہے۔ آخر کار خاتون وائرس کے پھیلاؤ کے بنیادی ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے بین الاقوامی عدالت برائے انصاف کے دروازے پر دستک دیتی ہے۔

"یہ ایک ڈارک کامیڈی ہے جس میں منفی کرداروں کو بے نقاب کرتے ہوئے ہمدردی اور انسان دوستی کی اہم ترین خصوصیات کو اجاگر کیا گیا ہے کیونکہ مادہ پرستی اور استحصالی نظاموں کے اس دور میں انسان کی بقا انہیں اقدار کو اپنانے میں ہے۔"

لیکن فرانسیسی فلسفہ دان ژاں پال سارتر کے وجودی فلسفےسے متاثر لکھاری کے ماحولیاتی چیلنجز سمیت انتہائی سنجیدہ مسائل پر طنز سے بھرپور اس ڈرامے کا انجام کیا ہوگا؟آیا اس میں کہیں امید کی کرن بھی نظر آتی ہے؟

ڈرامے کے پوسٹر کی ایک تصویر
ڈرامے کے پوسٹر کی ایک تصویر

اس سوال پر ممتاز حسین کا جواب تھا کہ، ’’اپنے سامعین اور قارئین کی دلچسبی برقرار رکھنے کی خاطر میں اتنا ہی کہوں گا کہ آخر میں رقص ہوگا‘‘۔

پاکستان، فرانس اور امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے والے لکھاری ممتاز حسین کا یہ تیسرا اسٹیج ڈرامہ ہے۔ اس سے قبل وہ "دی بارکنگ کرو" اور "لیگل ایلیئن" کے نام سے دوڈرامے نیویارک میں پیش کر چکے ہیں جنہیں شہر کے تارکین وطن اور دیگر حلقوں میں پذیرائی ملی تھی۔

"بیروک پرفارمنگ سنٹر" میں اسٹیج ہونے والے وائرس بم ڈرامے کی کاسٹ میں امریکہ میں بسنے والی مختلف برادریوں سے تعلق رکھنے والے فنکار سٹیج پراپنی صلاحیتوں کے اظہار کی تیاری کر رہے ہیں۔

ریہرسل کے دوران ممتاز حسین ہدایات دے رہے ہیں
ریہرسل کے دوران ممتاز حسین ہدایات دے رہے ہیں

لیکن یہ ڈرامہ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب سیلاب نے پاکستان میں تباہی مچادی ہے اور امریکہ کی کچھ ریاستیں بھی سیلاب کی لپیٹ میں ہیں۔

ممتاز حسین کہتے ہیں، ’’امریکہ میں ہمارے پاس آفات سے نمٹنے کے لیے مالی وسائل ہیں۔ میں اس ڈرامے سے ہونے والی تمام تر آمدنی پاکستان کے سیلاب زدگان کے لیے وقف کروں گا‘‘۔

اس کے علاوہ ممتاز حسین نے، جو اردو کے شاعر اور آرٹسٹ بھی ہیں، اپنی پینٹنگز کو اسلام آباد میں ہنرکدہ کی"آ رٹ آرکیڈ" کے نام سے ہونے والی نمائش میں نیلامی کے لیے بھیجا ہے۔

وہ کہتے ہیں، "ان پینٹنگز کی فروخت سےملنے والی رقم کو بھی مصائب میں گھرے پاکستانی لوگوں کی مدد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔"

XS
SM
MD
LG