رسائی کے لنکس

کیا ہالی وڈ مسلمانوں کی کہانیوں کے لیے تیار ہے؟


آسکر ایوارڈز کی رات اداکار وِل اسمتھ اور کامیڈین کرس راک کے درمیان بدمزگی تقریب کا ایک ایسا لمحہ تھا جسے بھلانا مشکل ہوگا۔ مگر اس واقعے سے ہٹ کر دیکھیں تو یہ رات کچھ ایسے حلقوں کے لیے بہت یادگار تھی جن کی کہانیاں مین اسٹریم میڈیا میں کم ہی نظر آتی ہیں اور اتنے بڑے اسٹیج پر کم ہی پزیرائی حاصل کرتی ہیں۔

جہاں ول اسمتھ آسکرز کی 94ویں برس کی تاریخ میں صرف تیسرے افریقی امریکی اداکار بنے جنہیں بہترین ایکٹر کا ایوارڈ ملا وہیں سماعت سے محروم لوگوں کی زندگیوں پر مبنی “کوڈا” نے بہترین فلم اور بہترین معاون اداکار کا اعزاز بھی جیتا۔

اسی رات ایک پاکستانی اور مسلمان گھرانے کی کہانی پر مبنی فلم “دا لانگ گڈبائی” کی جیت ایک ایسی کمیونٹی کے لیے اہم ہے جس سے تعلق رکھنے والے عموما فلموں میں ’دہشت گرد‘ یا کسی دوسرےچھوٹے اور سطحی کردار میں ہی نظر آتے ہیں۔ برٹش پاکستانی فنکار رِض احمد کی اس فلم نے بہترین لائیو ایکشن شارٹ فلم کا آسکر جیتا۔

سوال یہ ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہوا اور کیا اس جیت سے مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کی نمائندگی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی؟

اینن برگ انکلوژن انی شئیٹیو یونیورسٹی آف سد رن کیلیفورنیا کا ایک تھنک ٹینک ہے جو فلموں میں مختلف پس منظر کے افراد اور کہانیوں کی شمولیت کا جائزہ لیتا ہے۔ جون 2021 میں اس کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا میں 2018-2019 کے درمیان سب سے زیادہ پیسے کمانے والی فلموں میں سے صرف 10 فیصد میں کوئی ایسا مسلمان کردار تھا جس نے مکالمے ادا کیے ہوں۔ اس حوالے سے رِض احمد نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ “دنیا میں جو پالیسیاں بنائی جاتی ہیں، جو لوگ مارے جاتے ہیں اور جن ملکوں کے اوپر چڑھائی کی جاتی ہے، اسکرین پر مسلمانوں کی نمائندگی کا ان سے براہ راست تعلق ہے۔‘‘

رِض احمد (جن کا اصل نام رضوان احمد ہے) 1982 میں ویمبلی، انگلستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین نے 1980 کی دہائی میں پاکستان سے ہجرت کی۔ ہونہار رض نے سکالرشپ پر تعلیم حاصل کی اور پھرآکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجوئشن کی۔ آکسفورڈ میں انہیں اس بات کا اندازہ ہوا کہ وہاں کے کلچر میں دنیا کی دیگر ثقافتوں کا کوئی رنگ نہیں اور وہیں سے ان کے آرٹسٹک کیریر کا آغاز ہوا۔

اداکاری سے پہلے انہوں نے ‘rap’ موسیقی میں اپنا سکہ منوایا۔ یہ ایک ایسی صنف ہے جس میں معاشی اور نسلی طور پر کمزور افراد معاشرے کی درجہ بندیوں، نسل پرستی اور تعصب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ “دا لانگ گڈ بائی” بھی دراصل رض کی اداکاری کے ساتھ ساتھ ان کی ‘rap’ شاعری میں مہارت کی دلیل ہے۔ یہ فلم تین ایکٹس میں ہے جس میں سے پہلا انگلستان میں ایک ایسے پاکستانی گھر کی منظر کشی کرتا ہے جہاں شادی کی گہما گہمی ہے۔ دوسرے ایکٹ میں سفید فام ملک میں بھورے یا مسلمان ہونےکا خوف ایک ڈراؤنےخواب کے انداز میں منظرِ عام پر آتا ہے اور تیسرے ایکٹ میں رض اپنی ‘rap’ شاعری کے ذریعے اس نسل پرستی اور خوف کے خلاف آواز اٹھا کر اس سے ٹکر لیتے ہیں۔

مصنف اور فلم نقاد سعدیہ کھتری کا کہنا ہے کہ “دا لانگ گڈبائی” فلم بینوں کے منہ پر ایک تھپڑ کی طرح آ کر لگتی ہے" اور“انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو محفوظ کیسے تصور کر سکتا ہے؟ محفوظ کون ہے؟” سعدیہ کے بقول اس فلم میں مسلمان دقیانوسی انداز سے نہیں دکھائے گئے بلکہ وہ کافی حد تک مغربی کلچر میں گھلے ملے ہوئے ہیں ( پاپ سنگر بروس سپرنگسٹین کا ریفرنس حادثاتی نہیں ہے)، اس کے باوجود انہیں اپنے مسلمان اور پاکستانی ہونے کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے”۔ لانگ گڈبائی امریکی سنگر بروس سپرنگسٹین کا مشہور گیت ہے۔

جو موضوعات اس فلم میں دکھائے گئے ہیں، جیسے کہ اسلاموفوبیا اور پاکستانیوں کے خلاف نسل پرستی، ان پر رض احمد نے پہلی بار توجہ نہیں دی بلکہ ان کے بہت سے کام میں یہی بیانئے ابھرتے ہیں۔ 2018 میں انہوں نے برطانوی ہاؤس آف کامنز میں اس حوالے سے ایک اہم تقریر بھی کی جس میں انہوں نے قانون سازوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ پسماندہ نوجوانوں کی کہانیوں کو منظر عام پر لانے پر خاص توجہ دیں۔

صحافی رضا رومی کے بقول “رض احمد ایک بہت اچھے فنکار ہیں لیکن ایک فنکار سے بڑھ کر وہ مغربی ممالک میں مسلمانوں اور براؤن لوگوں کے نمائندہ بھی ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ مرکزی دھارے کے لوگوں نے بالآخر مسلمانوں اور جنوبی ایشیا کی کمیونیٹیز سے ابھرنے والے ٹیلنٹ کو ماننا شروع کر دیا ہے۔"

گو کہ آسکر جیتنے کی وجہ سے “دا لانگ گڈبائی” زیادہ توجہ کا مرکز بن گئی ہے لیکن اسی سال رض کی ایک اور فلم تین آسکرایوارڈز کےلیے نامزد ہوئی۔ اس فلم کا نام ’’فلی‘‘ یعنی فرار ہے اور یہ افغانستان سے ڈنمارک ہجرت کرنے والے ایک نوجوان کی کہانی ہے۔ ماضی میں انہوں نے پاکستانی ناول نگار محسن حامد کے ناول “دی ریلکٹنٹ فنڈامنٹلسٹ” پر مبنی فلم میں بھی مرکزی کردار ادا کیا۔ اس فلم میں بھی مغربی ممالک میں مسلمانوں کی جانب رویوں کی وجہ سے مسلمان نوجوانوں میں انتہا پسندی کے رجحان کو موضوع بنایا گیا تھا۔

پاکستانی امریکی مصنف اور صحافی وجاہت علی "ڈومیسٹک کروسیڈرز" کے نام سے ایک سٹیج پلے لکھ چکے ہیں جس کی کہانی ایک پاکستانی امریکی گھرانے کے گرد گھومتی ہے اور حال ہی میں ان کی کتاب ’’گو بیک ٹو ویئر یو کیم فرام‘‘ بھی سامنے آئی ہے جس میں انہوں نے تارکین وطن کے تجربات کے پیچیدہ پہلوؤں کو طنز و مزاح کے ذریعے بیان کیا ہے۔ رض احمد اور "دا لانگ گڈبائی‘ کی جیت کے بارے میں وا ئس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے وجاہت نے کہا کہ، ’’مجھے امید ہے کہ آج کا کوئی پاکستانی بچہ ان کو دیکھ کر کہے گا کہ ان کی جگہ کل میں بھی ہو سکتا ہوں۔‘‘

جہاں تک مین اسٹریم میں جنوبی ایشیائی اور مسلمانوں کی نمائندگی کا تعلق ہے تو اس سال جون میں امریکن ٹیلی ویژن اسکریننز پر تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک مسلمان سپر ہیرو ’’مس مارول‘‘ دکھائی دے گی۔ اس سیریز کی ڈائریکٹرز میں آسکر ایوارڈ یافتہ پاکستانی فلم میکرشرمین عبید چنائے شامل ہیں، اور اس میں کئی مسلمان اور پاکستانی اداکار نظر آئیں گے۔ پاکستانی نژاد امریکن ایکٹر ساگر شیخ جو مس مارول سیریز میں ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں نے پوڈکاسٹ فیز زیرو کو بتایا کہ “میں بچپن سے اس بات کا عادی ہوں کہ لوگ میرا نام غلط بلاتے ہیں۔ جب آٹھویں جماعت میں میں ایک نئے اسکول میں گیا تو وہاں کی لائبریریئن کو میرا نام پڑھنے میں دقّت پیش آئی۔ کچھ غور کرنے کے بعد انہوں نے کہا “شوگر شیکر” تو مجھے حیرانی بھی ہوئی اور ہنسی بھی آئی۔ اس لیے میں بہت خوش ہوں کہ میں ایک ایسے پراجیکٹ پر کام کر رہا ہوں جس سے لوگوں کو مختلف قسم کے لوگوں کے بارے میں کچھ سیکھنے کو ملے گا”۔

سوپر ہیرو فلموں میں پاکستانی اداکار کمیل ننجیانی فلم “ایٹرنلز” جب کہ رض احمد “وینم” میں کام کر چکے ہیں۔

سوپر ہیرو فلموں کے علاوہ کامیڈی میں بھی جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والوں کی شمولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ مزاح کے ذریعے لوگوں کو نئے زاویے سے سوچنے پر مجبور کرنا اس صنف کا خاصہ ہے اور اس میں سٹ کامز خاص طور پر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ برطانیہ میں “سٹیزن خان” اور “مین لائک مبین” نے مسلمانوں کے بارے میں گھسے پٹے خیالات کو بدلنے کی کوشش کی ہے۔ امریکہ میں“امیریکن اش” اور کامیڈین کمیل ننجیانی کی “دا بِگ سِک” وہ فلمیں ہیں جنہوں نے مسلمان اور پاکستانی کرداروں کو ہلکے پھلکے انداز میں پردے پر پیش کیا ہے۔ ان میں مسلمان کردار انہی مشکلات سے گزرتے نظر آتے ہیں جن سے دیگر رنگ و نسل کے عام لوگ گزرتے ہیں، جیسے محبت کی تلاش، رشتوں میں اونچ نیچ، اور اپنے پیاروں کی فکر۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ 2008 میں کنیڈین سیریز “لٹل موسک آن دا پریری" وہ پہلا قدم تھا جس کے بعد آنے والے برسوں میں مسلمان کرداروں کو گاہے بگاہے نئے اور مثبت انداز میں دکھایا جاتا رہا ہے۔

اس تمام پیش رفت کے باوجود اب بھی ایسے رول اور شوز آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ آعیزہ فاطمہ نیو یارک میں ایک پاکستانی نژاد کامیڈین اور اداکارہ ہیں۔ وہ فلم "امیریکن اش" کی مرکزی اداکارہ اور شریک مصنف ہیں۔ اس فلم کی کہانی امریکہ میں تین پاکستانی لڑکیوں کے گرد گھومتی ہے اور دکھاتی ہے کہ مسلمان امریکی معاشرے کا بالکل اسی طرح حصہ ہیں جسیے کوئی اور۔ آعیزہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “ہم کچھ “فرسٹس” (پہلی مرتبہ) دیکھ رہے ہیں مگر پھر بھی ہمیں مسلمان آوازوں کی ایک پائپ لائن چاہیے تاکہ ہم اتنی ہی متنوع کہانیاں سنا سکیں جتنی ہماری کمیونٹی ہے۔ لوگوں کا مسلمانوں کے بارے میں نظریہ تب تک نہیں بدلے گا جب تک ہم میں سے کہیں زیادہ لوگ اپنی کہانیاں اپنے انداز میں سنا نہ سکیں”۔

امریکہ جیسے متنوع ملک کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں جنوبی ایشیائی مسلمانوں کی کہانیوں کے کم اور سطحی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کمیونٹی میں اس طرف کم توجہ دی گئی۔ بیشتر گھرانوں میں ایسے پیشوں کو اپنانے پر زور دیا گیا جو معاشی ترقی کے ضامن ہوں جیسے ڈاکٹری یا انجینرنگ۔ مگر اب ان روایتی پیشوں سے ہٹ کر فلم بنانے کا ہنر حاصل کرنے اور سرمایہ کاری کے لیے انڈسٹری میں رابطے بنانے پر پہلے سے زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔

آسکر ونر رض احمد نے مسلمان فلم میکرز کے لیے ایک آرٹسٹ سکالرشپ کا آغاز کیا ہے جس کے پہلے گروپ کا اعلان 15 مارچ کو کیا گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلمان فلم میکرز کی نئی لہر سوچ کے پرانے انداز کو کس حد تک بدل پاتی ہے۔

XS
SM
MD
LG