سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف پورن سٹار سٹارمی ڈینئیلز کو خاموش رہنے کے لیے رقم کی ادائیگی کے مقدمے نے جہاں پہلے سے ہی منقسم امریکی سیاسی منظرنامے میں طوفان برپا کردیا ہے وہیں مبصرین کے مطابق غیر روایتی سیاست دان کے خلاف ہونےوالی عدالتی کاروائی کے کئی فوری اور دور رس سیاسی اور معاشرتی اثرات ہوسکتے ہیں۔
نیو یارک ڈسٹرکٹ کورٹ میں ٹرمپ کے خلاف مقدمہ ایسےماحول میں ہورہا ہے جب وہ حزب اختلاف ری پبلیکن پارٹی کے 2024 کے صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ جیتنے کی مہم چلا رہے ہیں۔
رائے عامہ سے متعلق یاہو سر چ انجن ، نشریاتی ادارے سی این این اور نیشنل پبلک ریڈیو کے حالیہ جائزوں میں جماعتی وابستگی سے ماورا سوچ رکھنے والے امریکی شہریوں کی معمولی اکثریت ٹرمپ کے خلاف قانونی کاروائی کی حمایت کرتی ہے۔ لیکن خبروں کے مطابق ساتھ ہی سابق صدر کے دیرینہ حمایتی حلقوں میں ان کے ساتھ اظہار یکجہتی میں اضافہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔
ان حالات میں جب کہ ڈیموکریٹک اور ری پبلیکن سیاستدان اگلے سال کے انتخابات کی تیاری کر رہے ہیں وہ ٹرمپ کے خلاف مقدمے کا بغور جائزہ لے رہے ہیں کہ آخر یہ مسئلہ پہلے سے موجود سیاسی کشیدگی کو کس حدتک ہوا دے گا۔
مبصرین کے مطابق سب سے بڑا فرق اس مقدمے اور ٹرمپ کی شخصیت کے بارے میں پارٹی سوچ کے مطابق بیانیوں میں نظر آتا ہے۔ اس مقدمے کے ممکنہ اثرات کو جاننے کے لیے وائس آف امریکہ نے نمایاں پاکستانی امریکی سیاست دانوں سے بات کی۔
ٹرمپ کے لیے 2016کی صدارتی مہم کے دوران ابھرنے والے "مسلمز فار امریکہ" تنظیم کے بانی ساجد تارڑ کہتے ہیں ہے کہ ٹرمپ کے خلاف مقدمے کے پیچھے سیاسی محرکات کارفرما ہیں ۔ ان کے بقول اگر معاملہ اگلے سال کے صدارتی انتخاب کا نہ ہوتا تو ٹرمپ کے خلاف بالغ فلموں کی اداکارہ اسٹارمی ڈینیئل کو مبینہ رقم کے ادائیگی کے بارے میں کوئی عدالتی کاروائی نہ ہوتی۔
دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سے ملحق ریاست میری لینڈ سے تعلق رکھنے والے تارڑ کہتے ہیں کہ ٹرمپ کے خلاف مقدمے سے سابق صدر کو کوئی سیاسی نقصان نہیں ہوگا۔
"بلکہ نیویارک میں ہونے والے مقدمے سے ان کے حمایتی ان کے لیے مزید متحرک ہوگئے ہیں اور ان کی مہم نے ریکارڈ رقوم اکٹھی کیں ہیں۔"
ساجد تارڑ، جو ایک کامیاب کاروبار ی شخصیت بھی ہیں، اصرار کرتے ہیں کہ اس مقدمے سے ڈیموکریٹس اور صدر جو بائیڈن کو نقصان ہوگا۔
"پہلے ہی ٹرمپ کو قومی میڈیا پر بہت زیادہ ایئر ٹائم ملنا شروع ہوگیا ہے اور اس مقدمے کا چاہے کوئی بھی نتیجہ نکلے میرے خیال میں ٹرمپ کی حمایت میں اضافہ ہوگا۔"
وہ یہ بھی دعوی کرتے ہیں کہ صدر بائیڈن کی بین الاقوامی سطح پر کارکردگی بہتر نہیں رہی اور وہ امریکی جوعالمی امور پر اپنے ملک کی لیڈرشپ برقرار رکھنا چاہتے ہیں اب ٹرمپ کی حمایت کریں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ ٹرمپ کو نقصان اس لیے نہیں ہو گا کیونکہ امریکی قانون کے مطابق ان پر الزام ثابت ہونے پر بھی وہ انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں، حتی کہ وہ جیل سے بھی الیکشن لڑ سکتے ہیں۔
لیکن ڈیموکریٹس کہتے ہیں کہ ٹرمپ کے خلاف نیویارک کی عدالتی کاروائی کا کسی طور بھی سیاست سے تعلق نہیں۔
نیویارک سے ملحقہ ریاست نیو جرسی کی ریاستی اسمبلی کی ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی رکن صدف جعفر کہتی ہیں کہ ٹرمپ کے خلاف مقدمہ کلی طور پر ایک قانونی معاملہ ہے۔
’’یہ ہر گز سیاسی مسئلہ نہیں جیسا کہ ری پبلیکن اسے بیان کرنے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ یہ ایک قانون اور انصاف کا معاملہ ہے‘‘۔
صدف جعفر ، جو اسمبلی وومن منتخب ہونے سے قبل دو بار منٹگمری کاونٹی کی میئر رہ چکی ہیں، کہتی ہیں اگر قانون کی عمل داری کے حوالے سے دیکھا جائے تو ٹرمپ کے خلاف مقدمہ ظاہر کرتا ہے کہ قانون اور انصاف کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں اور طاقتور افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانا امریکہ میں قانون کے یکساں نفاذ کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے سن 2020 کے الیکشن کے بعد امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں کانگریس کی عمارت یعنی کیپیٹل ہل پر حملے کے پس منظر میں کہا کہ ٹرمپ کئی مواقع پر قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں اور امریکی جمہوریت کی بنیاد یہ ہے کہ قانون سب پر یکساں لاگو ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اس مقدمے کا ہر گز صدر بائیڈن سے کوئی تعلق نہیں۔
’’قانون کی حکمرانی اور سیاست دو الگ الگ باتیں ہیں، اور ایسے لوگ جو مقدمات کو سیاسی رنگ دیتے ہیں وہ اس سوچ کو ظاہر کرتے ہیں جو جمہوری اقدار کو اہمیت نہیں دیتیں‘‘۔
ریاست ٹیکساس میں مقیم ایم جے خان ایک عرصے سے ری پبلیکن پارٹی سے منسلک ہیں لیکن سن 2016 کی الیکشن مہم کے بعد وہ میڈیا میں اپنے آزادانہ اور قدرے غیر جانبدارانہ تبصروں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے کہا:
"میرا غیر جانبدارانہ تجزیہ بتاتا ہے کہ جہاں تک قانون کی حکمرانی کی بات ہے تو یہ ایک تاریخی موڑ ہے کیونکہ پہلی بار کسی صدر کو مجرمانہ الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ کوئی بھی ماورائے قانون کام نہیں کر سکتا۔ "
ان کا کہنا تھا اس مقدمے کے فیصلے کے اثرات ایسے میں جو دور رس ہوں گے جب ملک میں پہلے ہی گہری سیاسی تقسیم موجود ہے۔
’’ امریکہ میں سیاسی معاملات پر تقسیم پہلے ہی سے بہت گہری ہےاور ٹرمپ کے خلاف مقدموں کا نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو اس کے اثرات دیر تک سیاسی افق پر منڈلاتے رہیں گے‘‘
اس ضمن میں بات کرتے ہوئے ایم جے خان نے کہا کہ ایوان نمائندگان میں، جہاں ری پبلیکن پارٹی اکثریت میں ہے، پہلے ہی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ صدر جو بائیڈن کے بیٹے ہنٹر بائیڈن کے خلاف کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کرائی جائیں۔
"یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ ٹرمپ کے خلاف عدالتی کاروائی امریکی سیاست کو جانب داری اور تقسیم کی خطرناک حد تک لے جاسکتی ہے جہاں دونوں پارٹیز ایک دوسرے کے خلاف چارہ جوئی کی بات کریں گی۔ "
"ایسے ماحول میں سیاست اور معاشرہ دونوں کو نقصان کا اندیشہ ہے کیونکہ دونوں اطراف کے لوگوں کی سوچ میں خلیج بڑھتی جائے گی۔"