رسائی کے لنکس

فرانس میں نسل پرستی پر بحث: ماہرین اور تارکین وطن کیا کہتے ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

فرانس میں الجیریا نژاد 17 سالہ ناہیل مرزوک کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے نتیجے میں ہونے والے پر تشدد احتجاج نے جہاں ملک میں بے چینی کا ماحول پیدا کیا ہے وہیں بین الااقوامی سطح پر ملک کے نسلی مسائل پر توجہ مرکوز کی ہے۔

فرانسیسی معاشرے میں نسلی تقسیم یا مسائل پر بات کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے کیونکہ ملک سرکاری طور پر ہر فرد کے لیے "کلر بلائنڈ" یعنی بلا امتیاز رنگ و نسل کے نام سے جانے والے تصور پر یقین رکھتا ہے۔

تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں گزشتہ صدی سے جاری امیگریشن سے ملک کی آبادی میں تنوع آیا ہے۔ تجزیاتی رپورٹس بتاتی ہیں کہ معروضی حقائق کے مطابق ہلاک ہونے والے ناہیل کا پیرس کے مضافات میں جس علاقے سے تعلق تھا وہاں قومی دھارے میں شامل ترقی یافتہ علاقوں کے مقابلے میں ترقی اور ملازمت کے مواقع کم ہیں ۔ لہذا فرانس کو نئے تناظر میں اپنے مسائل کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔

ورلڈ اٹلس کے مطابق فرانس میں تقریباً پانچ کروڑ سے زائد سفید فام لوگ ہیں جوملک کی کل آبادی کا 85 فیصد ہیں، 60 لاکھ افراد شمالی افریقی نژاد ہیں جو کہ کل آبادی کا 10 فیصد ہیں، 20 لاکھ سیاہ فام ہیں جو آبادی کا 3.3 فیصد ہیں اور تقریباً ایک ملین یا 1.7 فیصد لوگ ایشیا ئی نژاد ہیں۔

سیاسی سطح پر دیکھا جائے تو بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ فرانس کو شناخت کی سیاست کا مسئلہ بھی درپیش ہے اور اس واقعہ نے امیگریشن کے مخالف انتہائی دائیں بازو کو ایک نیا پلیٹ فارم دیا ہے اور اب وہ امیگریشن کے خلاف زیادہ آواز اٹھار رہے ہیں۔

فرانسیسی سینیٹ میں اکژ یتی قدامت پسند گروپ کے سربراہ برونو ریٹیلیو نے گزشتہ ہفتے کہا تھا "بدقسمتی سے دوسری تیسری نسل کے لیے ان کی اصلیت، ان کی نسلی بنیادوں کی طرف ایک طرح کی رجعت ہے۔"

انسانی حقوق کے علمبردار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ فرانسیسی پولیس غیر سفید فام فرانسیسی لوگوں کے ساتھ سفید فام لوگوں سے مختلف سلوک کرتی ہے۔ انسانی حقوق کے ایک آزاد گروپ، The Rights Defenders نے 2017 کی ایک تحقیق میں بتایا کہ پولیس سیاہ فام اور عرب سمجھے جانے والے نوجوانوں کو دوسرے نوجوانوں کے مقابلے میں 20 گنا زیادہ روکتی ہے۔

ان حالات میں فرانس میں بسنے والے لوگ ناہیل کی موت کو زیادہ تراس تناظر میں دیکتھے ہیں کہ افریقی ممالک سے، جہاں فرانس نے نوآبادیاتی دور میں حکمرانی کی، آئے تارکین وطن کو شکوہ ہے کہ فرانس اپنےان تصورات سے دور ہوتا جارہا ہے جن کے تحت مساوات اور آزادی ہر فرد کو یکساں حاصل ہو۔ بعض نوجوان تو یہ بھی کہتے ہیں کہ فرانس آج بھی استعماری دور کی سوچ سے باہر نہیں نکلا۔

ہلاک ہونے والے نوجوان ناہیل کی والدہ نے اپنے بیٹے کی موت میں نسلی امتیاز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ پوری پولیس فورس کو مورد الزام نہیں ٹھہراتیں بلکہ صرف اس افسر کو "جس نے میرے بیٹے کی جان لی۔" انہوں نے کہا،""اس نے ایک عرب چہرہ دیکھا، ایک چھوٹا بچہ، اور اس کی جان لینا چاہی۔"

دوسری طرف ایشیائی ملکوں سے آئےہوئے تارکین وطن عام طور پر کہتے ہیں کہ فرانس آزادی اور مساوات کا ماحول فراہم کرتا ہے جہاں ہر کوئی اپنی محنت سے آگے بڑھ سکتا ہے۔

پیرس میں مقیم پاکستانی، فرانسیسی سماجی کارکن تبسم سلیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فرانس کے بارے میں بین الااقوامی تاثر غلط ہے کہ ملک جان بوجھ کر ایک نظام کے تحت غیر فرانسیسی نژاد لوگوں سے امتیازی سلوک کرتا ہے۔

ناہیل کی ہلاکت کے بعد پر تشدد واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا،" فرانس نسل پرست ملک نہیں ہے بلکہ حالیہ واقعات مجرمانہ نوعیت کے ہیں۔"

فرانس کی حکومت اور عدالتوں کی جانب سے نوجوان لوگوں کو سخت سزائیں دینے پر بھی عالمی سطح پر تنقید کی جاتی ہے۔ ماہرین اس میں سوشل میڈیا پر موجود مواد اور ایپس کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

تبسم سلیم کہتی ہیں کہ ان مظاہروں میں شریک زیادہ تر نوجوان تفریحاً تخریبی کام کرتے ہیں اور وہ یہ سب ناہیل کے لیے نہیں کر رہے۔ ان کے بقول"عالمی میڈیا میں فرانس کے بارے میں جو کچھ کہا جارہا ہے فرانس ویسا ملک نہیں ہے۔ یہاں بیرون ممالک سے آنے والے لوگوں سے کہیں اچھا سلوک ہوتا ہے اور فرانسیسی لوگ ان کی مدد بھی کرتے ہیں۔ اگر آپ کے ملک میں لوگ چیزوں کو ر نذر آتش کرنا شروع کردیں تو آپ کیا کریں گے۔" "

خیال رہے کہ تشدد کے بعد فرانسیسی حکومت نے سوشل میڈیا کمپنیوں کو اپنے پلیٹ فارمز سے حساس نوعیت کا مواد ہٹانے کی ہدایت کی۔

صدر ایمانوئل میکروں نےشروع میں ناہیل کی ہلاکت کو "ناقابل فہم اور ناقابل جواز " قرار دیا۔ بعد ازاں انہوں نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے نو عمر بچوں کو گھروں میں ہی روک کر رکھیں۔

قبل ازیں، اقوام متحدہ نے فرانسیسی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی پولیس فورسز میں اصلاحات کرے اور ان کی متنازعہ نسلی بنیاد پر ہدف بنانے کی "ریس پروفائلنگ پریکٹس" کو روکے۔ "ہیومن رائٹس واچ "اور "ایمنسٹی انٹرنیشنل" سمیت انسانی حقوق کی چھ تنظیموں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ "حکومت کو پولیس اسٹاپ کے نظام میں اصلاحات کے لیے فوری اقدام کرنا چاہیے۔"

قوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر کی ترجمان، روینہ شامداسانی نے کہا، "یہ ملک کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں نسل پرستی اور امتیازی سلوک کے گہرے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کا لمحہ ہے۔"

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ ’’ناہیل کا قتل نظام میں نسل پرستی کے اثرات کی ایک اور مثال ہے۔"

ان الزامات کے ردعمل میں فرانسیسی حکام نے پولیس کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی صفوں میں نسل پرستی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

فرانس کی وزارت خارجہ نے گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا کہ فرانس میں پولیس فورس میں نسل پرستی یا نظام میں امتیاز کا کوئی بھی الزام بالکل بے بنیاد ہے۔

فرانس کے وزیر اقتصادیات برونو لی مائر نے کہا کہ فرانسیسی پولیس کو نسل پرست کہنا "ناقابل قبول" ہے۔

امریکہ میں نسل پرستی کس قدر سنجیدہ مسئلہ ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:47 0:00

فرانسیسی حکومت نے احتجاج پھوٹنے کے بعد امن بحال کرنے کے لیے 45000 پولیس اہلکار تعینات کر دیے۔ 3,400 سے زیادہ افراد کو مختلف جرائم، خاص طور پر جسمانی حملوں اور توڑ پھوڑ کے الزام میں گرفتار کیا گیا ۔ فرانس کی ایک کاروباری انجمن کے مطابق، فرانس میں کاروباری اداروں کو مظاہروں کے دوران 1 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔

جہاں ناہیل کی موت اور اس کے خلاف مظاہروں نے فرانس میں اس امتیازی سلوک کے مسئلے پر بحث چھیڑدی ہے وہیں بعض ماہرین فرانس میں ناہیل کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کا امریکہ میں افریقی امریکی جارج فلائیڈ کی ہلاکت سے موازنہ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس بعض دوسرے ماہرین کہتے ہیں کہ امریکہ اور فرانس کے حالات بالکل مختلف ہیں، ماضی مختلف ہے اور ان کا موازنہ نامناسب ہے ۔

فرانس کے ایک قومی ٹریننگ اسکول کے سابق رہنما برٹرینڈ کیولیئر کہتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایک افسر کے عمل سے پرکھا نہیں جانا چاہیے۔

انہوں نے امریکی پبلک براڈ کاسٹنگ سروس سے بات کرتے ہوئے کہا، "یہ ایک پولیس افسر کا معاملہ ہے جس نے غلطی کی اور اسے ایسا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن اسے گرفتار کر لیا گیا، اور یہ، میرے خیال میں، حکومت کی مرضی کے بارے میں ایک واضح پیغام ہونا چاہیے۔"

XS
SM
MD
LG