|
امریکہ نے ایران پر، یوکرین جنگ میں استعمال کے لیے روس کو بیلسٹک میزائیلوں کی فراہمی کے الزام میں مزید پابندیوں کو اعلان کیا ہے جبکہ تہران اپنی اقتصادی ترقی کے لیے خطے میں تجارتی تعلقات بڑھانے کی کوششیں آگے بڑھا رہا ہے۔
واشنگٹن کے یورپی اتحادی ملکوں برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے میزائل نظام پر ایرانی اور روسی تعاون کو یورپ کے لیے سلامتی کا خطرہ قرار دیتے ہوئے ایک مشترکہ اعلانیہ میں کہا ہے کہ ایران کے ساتھ فضائی سروس کے معاہدے منسوخ کردیے جائیں گے جس سے ایران کی برطانیہ اور یورپی ملکوں میں فضائی سفر کی سہولت متاثرہوگی۔
امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کے مطابق ایران نے درجنوں روسی فوجی اہلکاروں کو اپنا قریب رینج والا فاتھ 360 نام کا بیلسٹک میزائل سسٹم استعمال کرنے کی تربیت بھی دی ہے۔ اس میزائل کی زیادہ سے زیادہ رینج 75 میل (121 کلومیٹر) ہے۔
تہران میں وزارت خارجہ کے ترجمان نصر قانانی نے روس کو میزائل نظام دینے کے الزامات کی تردید کی ہے۔ ایران نے یورپی ملکوں سے فضا ئی معاہدوں کی منسوخی کے غیرمعمولی اقدام کے خلاف سفارتی سطح پر احتجاج ریکارڈ کرا کے خبردار کیا ہے کہ وہ پابندیوں کا مناسب جواب دے گا۔
اس سے قبل اپریل میں صدر جو بائیڈن نے شپ ایکٹ (اسٹاپ ہاربرنگ ایرانی پیٹرولیم ایکٹ) نامی قانون کی منظوری دی تھی جس کے تحت امریکی حکومت ایرانی تیل کی تجارت میں شامل عالمی بندر گاہوں کے آپریٹرز، جہازوں کے مالکان اور ریفائنریوں پر پابندیاں عائد ہوں گی۔
ایران پر پابندیوں کے اثرات
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ابھی مکمل طور پر واضح نہیں ہے کہ تازہ ترین امریکی اور یورپی پابندیوں کے اطلاق سے تہران کو کتنا نقصان ہوگا۔ تاہم ایران کے خلاف کئی دہائیوں سے جاری پابندیوں نے اس کی معیشت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
تہران میں مقیم ممتاز ایرانی تجزیہ کار اور صحافی آر اے سید کہتے ہیں کہ پابندیوں سے ایران کو مشکلات تو درپیش ہوتی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر ایران کو بین الاقوامی تجارت اور لین دین کے لیے امریکہ کے زیر اثر عالمی مالیاتی نظام اور بینکنگ میں مشکلات پیش رہی ہیں۔ اسی طرح صحت کے شعبے میں بھی ایران کو کرونا بحران کے دوران ویکسین تک رسائی میں چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔
تاہم، وہ کہتے ہیں کہ مغربی پابندیوں کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے ۔
وہ یہ کہ ان سے ایران کو خود کفالت اور خود انحصاری کی ترغیب ملی ہے۔ ایران نے تعلیم کے شعبے میں اور اپنے شہروں کی جدید طرز پر تعمیر میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی ہے۔
ایران کی خطے میں تجارت بڑھانے کی پالیسی
جس روز مغربی ملکوں نے ایران پر نئی پابندیوں کا اعلان کیا ایران کے صدر مسعود پزشکیان عراق کے دورے پر بغداد میں موجود تھے۔ ایرانی رہنما نے عراق کے وزیرِ اعظم محمد شیعہ السوڈانی سے ملاقات کی جبکہ دورے میں ایران اور عراق نے دو طرفہ تعاون کے مختلف معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔
علاقائی صورتِ حال اور مشرق وسطی کے خطے میں پائی جانے والی کشیدگی کے تناظر میں اس دورے کو اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔
حالیہ سالوں میں ایران اور عراق کی تیل کے علاوہ اشیا کی تجارت کا حجم پانچ ارب ڈالر سے بڑھ گیا ہے۔
تجزیہ کار آر اے سید کہتے ہیں کہ ایران کا مغربی پابندیوں سے مقابلے کرنے میں خطے میں تجارت ایک اہم جزو ہے۔ وہ کہتے ہیں ایران ایک ایسے جیو اسٹریٹیجک خطے میں ہےجہاں اس کے ہمسائے میں دنیا کے پندرہ اہم ممالک ہیں۔
"اگر ایران ان پندرہ ملکوں سے تجارتی روابط بڑھا لے تو اسے باہر کی دنیا سے اقتصادی تعلقات کی کیا پرواہ ہوگی؟"
ایران پابندیوں سے بچ کر کیسے مالی لین دین کرتا ہے؟
مشرق وسطی کے امور کی ماہر اور تجزیہ کار سبین صدیقی کہتی ہیں کہ ایران تقریباً چالیس سال سے مغربی اقتصادی پابندیوں کے ساتھ نبرد آزما ہے اور کافی حد تک کامیاب بھی رہا ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بنیادی طور پر، ایران نے فرنٹ ممالک یا کمپنیوں کو استعمال کرکے پابندیوں سے بچنے کی کوشش کی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ایرانی کرنسی ایکسچینج ہاؤسز میں سے کچھ نے اپنے ایرانی کلائنٹس کی جانب سے تجارت کو ممکن بنانے اور امریکی پابندیوں سے بچنے کے لیے بیرون ملک فرنٹ کمپنیاں بنائی ہیں۔
ان کے بقول س طرح یہ کمپنیاں ایرانی حکومت کے لیے اربوں ڈالر کمانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ پھر ملائیشیا جیسے دوسرے ممالک کی کمپنیوں کو دوبارہ استعمال کرتے ہوئے تیل چین کو اسمگل کیا جاتا ہے۔
ایرانی تیل اور گیس کی سپلائی اور امریکی پابندیاں
ایران کے پاس قدرتی گیس کے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ذخائر ہیں جبکہ وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا اور مشرق اور مغرب کے سنگم پر واقع ترکی سے جڑے ملک میں خام تیل کا چوتھا بڑا زخیرہ ہے۔
تجزیہ کار سید کہتے ہیں کہ بھارت، چین، عراق اور روس سے تجارت ایران کو پابندیوں سے مقابلہ کرنے میں مددگار ثابت ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ایران ہمسایہ ملک عراق کو کئی ملین کیوبک میٹر گیس یومیہ فراہم کرتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ایران کی سفارت کاری کا ایک اہم حصہ پائپ لائن کے ذریعہ پاکستان اور دوسرے ملکوں کو قدرتی گیس کی فراہمی کے منصوبے بھی ہیں۔ جن ملکوں کو پابندیوں کے اطلاق سے استثنی حاصل ہے انہیں ایران توانائی فراہم کرتا ہے جبکہ دوسرے ملکوں کو تیل پہنچانے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتا ہے۔
ماہر سبین صدیقی کہتی ہیں کہ مثال کے طور پر ایران چین کو ملیشیا اور دوسرے ملکوں کی کمپنیاں استعمال کرکے تیل اسمگل کرتا ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی کے سینٹر آن انرجی پالیسی کے مطابق چین نے سال 2023 میں یومیہ 1.1 ملین بیرل ایرانی خام تیل درآمد کیا، جو چین کی تیل کی درآمدات کا 10 فیصد ہے۔ اس طرح روس، سعودی عرب اور عراق کے بعد ایران چین کو تیل سپلائی کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔
اس ضمن میں بات کرتے ہوئے سبین صدیقی کہتی ہیں کہ ایران اور چین کے درمیان 25 سالہ دو طرفہ اسٹریٹیجک معاہدہ ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ نے "نیشنل ڈیفنس اتھارٹی ایکٹ برائے مالی سال 2012" کے ذریعہ دنیا کے ملکوں پر ایرانی تیل کی درآمد پرپابندیاں لگا رکھی ہیں۔ اس کے علاوہ 2023 کے "ایران چین انرجی سینکشنز ایکٹ" کے تحت ایسے چینی مالیاتی اداروں پر بھی پابندیوں کا اطلاق ہوتا ہے جو ایران سے تیل کی خرید میں مددگار ہوتے ہیں۔
سینٹر آن انرجی پالیسی کی ویب سائٹ پر شائع ایک تحریر میں، انرجی سکیوریٹی اور جیو پالیٹکس کی ماہر ایریکا ڈاؤنز اور جیو پالیٹکس کے ماہر ایڈوارڈ فش مین، نےنوٹ کیا کہ امریکی پابندیوں سے ماضی میں، خاص طور پر 2012 سے 2015 کے ایٹمی معاہدے کےدوران ایران کے تیل کی برآمدات کے خاطر خواہ کمی دیکھی گئی تھی ۔
تاہم، ان ماہرین کے مطابق ایسا نہیں لگتا کہ چین ایران سے تیل حاصل کرنے کے لیے اپنی کمپنیوں کو روکے گا۔ عام طور پر ایرانی تیل چین تک دوسرے ملکوں کی کمپنیوں کے ذریعہ بلواسطہ پہنچتا ہے۔
تجزیہ کار اے آر سید کہتے ہیں کہ ایران دوسرے ملکوں سے بارٹر ٹریڈ یعنی مال کے بدلے مال کے طریقے سے بھی تجارت کرتا ہے جس سے وہ عالمی مالیاتی نظام کی پابندیوں سے بچتا ہے۔
ایران کی علاقائی اور عالمی تنظیموں میں شرکت اور اثرو رسوخ
اے آر سید کہتے ہیں کہ ایران قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور دنیا کی بڑی معیشتوں میں اس کا شمار ہوتا ہے اس لیے اس پر عالمی پابندیوں کا نفاذ اتنا آسان نہیں ہے۔ ایران اس وقت دو ٹریلین ڈالر جی ڈی پی کی معیشت ہے۔
تجزیہ کار سید کے مطابق ایران شنگھائی کوآپریشن آرگنائیزیشن یعنی ایس سی او اور چین، روس، بھارت اور برازیل سمیت دنیا کی کچھ بڑی معیشتوں پر مشتمل برکس جیسی بڑی تنظیموں کا رکن ہے اور اس کا مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا میں اثرو رسوخ ہے۔
مشرق وسطی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری غزہ جنگ کے دوران بھی ایران کا شام، لبنان، عراق اور یمن کے حوثیوں پر اثرو رسوخ نمایاں رہا ہے۔
سبین صدیقی کہتی ہیں کہ ایران اپنے تازہ ترین اقدام میں روس کو میزائل بیچ کر بھی اپنا اثرو رسوخ بڑھا رہا ہے۔
فورم