|
امریکہ اور بغداد کےدرمیان امریکی زیر قیادت اتحادی فورسز کے عراق سے انخلا کے منصوبوں کے بارے میں ایک سمجھوتہ طے پاگیا ہے۔ یہ بات اس معاملے سے واقف متعدد ذرائع نے بتائی ہے۔
رائٹرز نے کہا ہے کہ عراقی وزیر اعظم کے خارجہ امور کے مشیر فرہاد علاؤالدین نے کہا کہ’’ اتحادیوں کے انخلاء پر واشنگٹن کے ساتھ تکنیکی مذاکرات مکمل ہو گئےہیں۔ ہم اس وقت عراق اور بین الاقوامی اتحاد کے ارکان کے درمیان تعلق کو ، فوج میں دو طرفہ تعلقات،سیکیورٹی، اقتصادی اور ثقافتی شعبوں پر مرکوز کرتے ہوئے ایک نئی سطح پر لے جانے کے قریب ہیں ۔‘‘
انہوں نے منصوبے کی تفصیلات پر کوئی بات نہیں کی اور امریکی قیادت والے اتحاد نے ای میل کیے گئے سوالات کے جواب نہیں دیے ۔
مجوزہ معاہدے میں کیا کیا کچھ شامل ہے ؟
یہ معاہدہ بغداد اور واشنگٹن کے درمیان چھ ماہ سے زیادہ عرصے پر محیط مذاکرات کے بعد طے کیا گیا ہے۔ اسےجنوری میں وزیر اعظم محمد شیعہ السوڈانی نے عراقی اڈوں پر تعینات امریکی افواج پر ایران کے حمایت یافتہ عراقی مسلح گروپوں کے حملوں کے دوران شروع کیا تھا۔۔
ذرائع نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ اس منصوبے کے تحت ،جس پر وسیع پیمانے پر اتفاق ہو گیا ہے لیکن جسے دونوں دار الحکومتو ں کی جانب سے حتمی منظوری اور تاریخ کے اعلان کی ضرورت ہے،ستمبر 2025 تک سینکڑوں فوجی ملک سے چلے جائیں گے جبکہ باقی 2026 کے اختتام تک وہاں سے روانہ ہوں گے ۔
اس مجوزہ منصوبے کے تحت، تمام اتحادی افواج مغربی صوبہ الانبار میں واقع عین الاسد ایربیس سے نکل جائیں گی اور ستمبر 2025 تک بغداد میں اپنی موجودگی کو نمایاں طور پر کم کر دیں گی۔
امریکی اور دیگر اتحادی فوجی متوقع طور پر 2026 کے تقریبا ً اختتام تک لگ بھگ مزیدایک سال کے لیے نیم خودمختار شمالی کردستان کے علاقے اربیل میں رہیں گے تاکہ شام میں داعش کے خلاف جاری کارروائیوں میں سہولت فراہم کر سکیں۔
رائٹرز کے مطابق امریکہ اور عراق ایک نیا مشاورتی تعلق بھی قائم کرنے کی کوشش کرر ہے ہیں جس کے تحت امریکہ کے کچھ فوجی انخلا کے بعد وہاں قیام جاری رکھ سکیں گے۔
فوجیوں کی نقل و حرکت کی درست تفصیلات کو فوجی طور پر حساس ہونے کی وجہ سے خفیہ رکھا جا رہا ہے۔
اگرچہ اس منصوبے میں توجہ بنیادی طور پر اسلامک اسٹیٹ کا مقابلہ کرنے پر مرکوز کی گئی ہےتااہم امریکی حکام تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی موجودگی ایرانی اثر و رسوخ کے خلاف ایک اسٹریٹجک پوزیشن کے طور پر بھی کام کرتی ہے۔
معاہدے کی ضرورت کیوں پیش آئی
رائٹرز کا کہنا ہے کہ امریکی حکام کے مطابق یہ پوزیشن ایک ایسے وقت میں مزید اہمیت اختیار کر گئی ہے جب اسرائیل اور ایران کے درمیان علاقائی محاذ آرائی بڑھ گئی ہے اور عراق میں موجود امریکی فورسز نے حالیہ مہینوں میں اسرائیل کی جانب فائر کیے گئے راکٹوں اور ڈرونز کو مار گرایا ہے ۔
راکٹ اور ڈرون کے ان حملوں میں تین امریکی فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں امریکہ کی کئی مہلک جوابی کارروائیوں سے عراقی حکومت کی ان کوششوں کے لیے خطرہ لاحق ہوا ہے جو وہ عراق کو کئی دہائیوں کے تنازعے کے بعد مستحکم کرنے کے لیے کر رہی ہے ۔
وزیر اعظم السوڈانی نے کہا ہےکہ اگرچہ وہ امریکی فوجیوں کی مدد کو سراہتے ہیں لیکن امریکی فوجی اکثر ہدف بنتے ہیں اور ایسے حملوں کے ساتھ جوابی کارروائی کرتے ہیں جو اکثر اوقات عراقی حکومت کے ساتھ مربوط نہیں ہوتے ، اس لیے وہ عراق میں عدم استحکام کا باعث بن رہے ہیں۔۔
معاہدے کا اعلان کب ہو گا
رائٹرز کا کہنا ہے کہ ایک سینئر امریکی عہدے دار نے بتایا کہ ہمارے درمیا ن ایک معاہدہ طے پاگیا ہے اور اب صرف یہ سوال باقی ہے کہ اس کا اعلان کب ہو گا۔
ذرائع نے بتایا کہ پروگرام کے مطابق اس منصوبے کا باضابطہ اعلان کئی ہفتے قبل کیا جانا تھا لیکن اسے غزہ میں اسرائیل کی جنگ سے منسلک علاقائی کشیدگی اور باقی رہ جانے والی کچھ تفصیلات کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا تھا۔
کئی ذرائع نے بتایا کہ اس معاہدے کا اعلان رواں ماہ کیا جا سکتا ہے۔
بقول رائٹرز ان ذرائع میں پانچ امریکی اہلکار، دوسرے اتحادی ممالک کے دو اہلکار اور تین عراقی اہلکار شامل ہیں، سبھی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی کیونکہ انہیں اس معاملے پر عوامی سطح پر بات کرنے کا اختیار نہیں تھا۔
اتحادی فورسز عراق اور شام میں کب اور کیوں گئی تھیں؟
امریکہ کے عراق میں تقریباً ڈھائی ہزار اور پڑوسی ملک شام میں 900 فوجی موجود ہیں جو 2014 میں داعش کے مقابلے کےلیے تشکیل دئے گئے اتحاد کے ایک حصے کے طور وہاں متعین کیے گئے تھےجب کہ داعش دونوں ملکوں میں تشدد کی بھر پور کارروائیاں کر رہی تھی۔
عراقی وزیر اعظم کے خارجہ امور کے مشیر فرہاد علاؤالدین نے کہا کہ یہ گروپ کسی زمانے میں عراق اور شام کے ایک تہائی علاقے پر قابض تھا لیکن اسے 2017 کے آخر میں عراق اور 2019 میں شام میں علاقائی طور پر شکست ہوئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ عراق نے باقی ماندہ کسی بھی خطرے سے نمٹنے کی اپنی صلاحیت کامظاہرہ کیا ہے ۔
امریکہ نے ابتدائی طور پر عراق پر 2003 میں حملہ کیا تھا اور 2011 میں وہاں سے انخلا سے قبل ڈکٹیٹر صدر صدام حسین کا تختہ الٹ دیا تھا لیکن امریکہ 2014 میں داعش سے لڑنے کے لیے اتحاد کے سر براہ کے طور پر وہاں واپس گیا۔
جرمنی، فرانس، اسپین اور اٹلی سمیت دوسرے ملک بھی اتحاد میں شامل ہیں۔
معاہدہ السوڈانی کی ایک سیاسی جیت کا عکاس ہو گا
رائٹرز کے مطابق عراق سے امریکی قیادت کے اتحادی فوجیوں کا یہ انخلا خطے میں واشنگٹن کی فوجی پوزیشن میں ایک قابل ذکر تبدیلی کی نشاندہی کرے گا۔
اس معاہدے کا جب اعلان کیا جائے گا تو یہ ممکنہ طور پر السوڈانی کے لیے ایک سیاسی جیت کا عکاس ہو گا کیونکہ انہوں نےواشنگٹن اور تہران دونوں کے اتحادی کے طور پر عراق کی پوزیشن کو توازن میں رکھاہے۔
انخلاء کا پہلا مرحلہ اکتوبر 2025 میں عراقی پارلیمانی انتخابات سے ایک ماہ قبل ختم ہو جائے گا۔
ایک امریکی اہلکار نے کہا کہ امریکہ کے لیے دو سال کا ٹائم فریم ایک مہلت فراہم کرے گا جس سے علاقائی صورت حال میں تبدیلی کی صورت میں ممکنہ تبدیلیاں ہو سکیں گی۔
امریکی محکمہ خارجہ اور بغداد میں امریکی سفارت خانے نے تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔
فورم