رسائی کے لنکس

جب میں امریکہ پہنچا: پتا چلاکہ میری یونیورسٹی کے ڈگری یافتہ نوجوانوں کے لیے ملازمت کا حصول انتہائی دشوار تھا- زلقی خان


زلقی خان اپنے ہیومن ایمپاور مینٹ اینڈویلفئیر ٹرسٹ کی ایک تقریب کےلیے پاکستان میں
زلقی خان اپنے ہیومن ایمپاور مینٹ اینڈویلفئیر ٹرسٹ کی ایک تقریب کےلیے پاکستان میں

"جب میں کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجنئیرنگ کی ڈگری کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے فل اسکالر شپ پر امریکہ پہنچا تو مجھے لگا کہ میری لاٹری نکل آئی ہے۔ امریکہ کی کسی یونیورسٹی میں وہ تعلیم جس کے اخراجات برداشت کرنا پاکستان کے کسی متوسط گھرانےکے نوجوان کی سوچ سے باہر تھا، وہ سب یونیورسٹی ادا کر رہی تھی جس کے لیے مجھے صرف اس کے کسی بھی ڈپارٹمنٹ میں ہفتے میں بیس پچیس گھنٹے کام کرنا تھا۔"

کیوں آپ بھی حیران ہوگئے نا؟ یہی حیرانی لیکن بے پناہ مسرت 35 برس پہلے ایک نوجوان زلقی خان کو بھی ہوئی تھی جنہوں نے وی او اے کو بتایا کہ ، 35 سال قبل ایک امریکی یونیورسٹی میں ایم بی اے کی فل اسکالر شپ پر تعلیم ، بہترین رہائش اور بہت اچھے دوست پا کر امریکہ کے بارے میں اس تاثر پر مکمل یقین ہو گیا کہ یہ واقعی مواقع اور خوابوں کی سرزمین ہے ۔

"لیکن یہ خوشی چھ ماہ بعد اس وقت پریشانی میں بدل گئی جب ہم نے دیکھا کہ آئیوا کی جس یونیورسٹی میں ہم نے داخلہ لیا ہے اس سے گریجوایشن کرنے والے نوجوانوں کو ملازمتیں ملنے میں شدید دشواری پیش آرہی ہے ۔ اور وجہ یہ تاثر تھا کہ وہ میڈیٹیشن، یعنی مراقبے سے متعلق کوئی درسگاہ ہے۔"

یہ انکشاف امریکہ میں مستقل سکونت اختیار کرنے کے میرے خواب کا اختتام بھی ہوسکتا تھا۔ کیوںکہ میں جانتا تھا کہ اگر ایم بی اے کے بعد ایک سال تک مجھے کوئی ملازمت یا اسپانسر شپ نہیں ملی تو امریکہ میں رہنے کے لیے مجھے یا تو پھر سےکسی یونیورسٹی میں داخلہ لینا پڑے گا جس کے اخراجات برداشت کرنا میرے لیے ممکن نہیں ہوں گے، یا پھر پاکستان واپس جانا ہوگا۔"

واحد حل تھا کسی اور یونیورسٹی میں داخلہ۔

لیکن جس مسئلے کےحل کےلیے اس یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا وہ ایک بارپھر میرے سامنے تھا، یعنی تعلیمی اخراجات ۔ بہر طوراسی یونیورسٹی میں فری ایجوکیشن کا ایک سال مکمل ہوا تو میرے والدین نے جو دونوں ہی کراچی میں ڈاکٹر تھے ، باقی ایک سال کی تعلیم ایک دوسری یونیورسٹی سے حاصل کرنے کے لیے فیس کا انتظام کردیا اور میں نے آئیواکی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا جس کی فیس ایک سیمسٹر کےلئے 6000 ڈالر تھی۔

یونیورسٹی میں داخلہ تو ہو گیا لیکن رہائش ، کھانے پینے اور دوسری ضروریات کے لیے مجھے کم از کم 400 ڈالر چاہئے تھے ۔ اور تعلیم کے ساتھ ساتھ اتنے پیسے کمانا کوئی آسان کام نہیں تھا ، جب کہ اس وقت کام کی فی گھنٹہ اجرت چار ڈالر 25 سینٹ تھی ۔ تو ایک دن میں تین تین ملازمتیں کیں، کبھی گیس اسٹیشن پر ،کبھی رات کو لائبریری میں ، کبھی سیکیورٹی گارڈ کا کام ، کبھی پیزا ڈیلوری اور کبھی سینڈوچز بنانے کی ملازمت کی۔ اور اپنی تعلیم کا آخری سال مکمل کر کے جب میں نے آخرکار ایم بی اے کی ڈگری لی تو امریکہ آمد کامقصداور میری زندگی کا ایک بڑا خواب پورا ہوا۔

لیکن ابھی عشق کے امتحاں اور بھی تھے، اور ان میں سے ایک ایسی ملازمت کا حصول تھا جس کا آجر مجھے چھ ماہ تک پریکٹیکل ٹریننگ دے اور ایک سال کے اندر اسپانسر کر کے گرین کارڈ دلوا سکے۔ اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں مجھے قانون کے مطابق واپس پاکستان جانا پڑتا یاپھر دوبارہ کسی یونیورسٹی میں داخلہ لینا پڑتا تھا اور پھر سے ٹیوشن فیس اور دوسرے اخراجات کے لیے مشقت کا سلسلہ شروع کرنا پڑتا۔ تو میں نے ایسے آجر اور ایسی جاب کی تلاش شروع کر دی ۔

ملازمت کی ایک ہزار ایک سو درخواستیں

میں نے ڈگریوں کی بنیاد پر اپنے ہر ہنر سے متعلقہ ملازمت کے لیے ایک ہزار ایک سو جگہ اپلائی کیا ۔ اس وقت انٹر نیٹ نہیں ہوتا تھا ، درخواستوں کو میل کرنا پڑتا تھا یا فیکس ۔ تو جہاں کہیں اپنے لائق کسی جاب کا پتہ چلتا وہاں کسی پرانے یا نئے دوست یا کسی بھی نئےپرانےجاننے والے کے گھر چلا جاتا، جہا ں کبھی اس کے صوفے پر ، کبھی قالین پر ، اور جوجگہ بھی وہ فراہم کرتا وہا ں ایک یا دو ماہ رہتا۔ دن بھر چھوٹی موٹی جاب کرتا اور ملازمت کےلیےدرخواستیں اور انٹر ویو دیتا رہا۔ اور اس سلسلے میں دو تین ریاستوں تک کا سفر کیا لیکن ۔دس ماہ گز ر گئے، امریکہ میں قانونی طور پر رہنے کے لیے میرے پاس صرف دو ماہ باقی تھے، لیکن کوئی اسپانسر شپ والی جاب نہ ملی ۔

پھرجو کام میری ایم بی اے اور الیکٹریکل انجنئیرنگ کی ڈگریوں نے نہ کیا ایک چھوٹے سے دیسی گروسری اسٹور کے مالک کی سفارش سے تکمیل کو پہنچا۔ ہوا یو ں کہ جس دیسی گراسری اسٹور پر میں کام کرتا تھا اس کے مالک نے ایک دن مجھے اپنے ایک دوست کے پاس بھیجا جسے اپنی ایک چھوٹی سی کمپنی کے لئےکسی ٹیکنیکل کارکن کی ضرورت تھی۔

گرین کارڈ اور ٹیکنیکل ٹریننگ

اس کمپنی کے مالک نے میری این ای ڈی الیکٹریکل انجئیرنگ اور ایم بی اے کی ڈگریوں کو کاغذ کے ٹکڑوں جتنی اہمیت دیتے ہوئے کہا کہ تمہارے پاس اصل پتا یعنی گرین کارڈ نہیں ہے۔ اس لیے میں تمہیں چھ ڈالر فی گھنٹہ پر ملازم رکھ سکتا ہوں۔ ہاں میں تمہیں اسپانسر کر دوں گا لیکن گرین کارڈ کے لیے تمام قانونی کارروائی کے اخراجات تمہیں خود بھرنے ہوں گے۔ میرے پاس وقت بہت کم تھا اور اب تک کا یہ پہلا آجر تھا جو میری اعلی تعلیمی ڈگریوں کی بے قدری کرنے کے باوجود کم از کم اسپانسر شپ کا وعدہ تو کر رہا تھا تو میں نے اس کی تمام شرائط قبول کر لیں۔

اس نے وعدے کے مطابق مجھے گرین کارڈ دلوا دیا لیکن اس دوران اس نے ایک اور نیکی یہ کی کہ مجھے سافٹ وئیر ، ہارڈ وئیر اور ان سے متعلق تمام ٹیکنیکل ہنر جو میں دو سال میں سیکھتا ، صرف چھ ماہ میں سکھا دئے اور متعلقہ اداروں سے ٹریننگ کورسز بھی کرادیے ۔

باس کی کمپنی کے لئے پاکستان میں آؤٹ سورسنگ اور شادی کا بندھن

میں باس کا مشکور تھا اور اسی لیے میں نے انہیں کمپنی کو بڑھانے کے لیے پاکستان میں آؤٹ سورسنگ کا آئیڈیا دیا ،جو اس زمانے میں ابھی امریکہ میں شروع نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے مجھے اس پر عمل درآمدکےلیے پاکستان بھیجا جہاں میں نے اس کی کمپنی کی ایک برانچ قائم کی۔ اورواپس آنے سےقبل میرے والدین نے مجھے شادی کے بندھن میں باندھنے کا بندو بست کر دیا اور چھ ماہ بعد جب میں امریکہ واپس آیا تو میری اہلیہ ربیکا ہارون جو کراچی کی آئی بی اے یونیورسٹی کی ایم بی اے تھیں، میرے ساتھ تھیں۔

زلقی خان شادی کے بعد اپنی اہلیہ ربیکا ہارون کےساتھ
زلقی خان شادی کے بعد اپنی اہلیہ ربیکا ہارون کےساتھ

شریک حیات کا ساتھ اور کامیابیوں کا آغاز

میری کمپنی کے باس کو میرے آئیڈیا کی وجہ سے بہت فائدہ ہوا اور انہوں نے مجھے کیلفورنیا میں کمپنی کی ایک شاخ قائم کرنے کےلیے بھیجا جہاں گوگل، انیٹیل، مائکروسوفٹ اور ٹکنالوجی کی تمام بڑی کمپنیاں تھیں ۔ میری اہلیہ اس مشن میں میرے ساتھ رہیں ۔ ہم دونوں نے وہاں کمپنی قائم کی جو بہت جلد بہت زیادہ منافع دینے لگی اور ہمارے بھی حالات بہت بہتر ہو گئے ۔ ہم دونوں بہت خوش تھے لیکن دو سال بعد والد صاحب کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے کراچی واپس چلے گئے ۔ وہاں بھی بہت اچھا بزنس کیا اور ہم دونوں بہت اچھی کمپنیوں میں ملازمت بھی کرتے رہے۔

ہماری بیٹی کی ولادت قریب تھی اورہم دونوں چاہتے تھے کہ اس کی پیدائش امریکہ میں ہو تاکہ اسے امریکی شہریت کا حق مل سکے ۔ تو اسے یہ موقع فراہم کرنے کے لیے اپنی ملازمتوں سے چھٹی لے کر امریکہ واپس آئے ۔ لیکن بیٹی کی ولادت کے بعد ہم نے پاکستان کے سیکیورٹی کےحالات اور اپنے خاندانی حالات کی وجہ سے امریکہ میں رہنے کا فیصلہ کیا ۔

نیکسلوجک ٹکنالوجیز کمپنی کا قیام

ہم نے پاکستان میں اپنی ملازمتوں سے استعفیٰ دیا اوراپنے سابق باس کے لیے ٹیکنالوجی کی کامیاب کمپنی کے تجربے کو استعمال کرتے ہو ئے کیلی فورنیا میں خود اپنی کمپنی،’ نیکسلوجک ٹکنالوجیز ‘ قائم کی۔

یہ کمپنی ایپل، گوگل ، انیٹیل، مائیکروسوفٹ،فیس بک، بوسٹن سائنٹفک، ایمیزون ، ناسا، آئی بی ایم اوراسیپس ایکس کےلیے انڈسٹرئیل پروڈکٹس، میڈیکل ڈیوائسز اور ایرو اسپیس ٹکنالوجیز تیار کرتی تھی ۔ اس کمپنی نے اپنے قیام کے ایک سال بعد چار لاکھ دس ہزار ڈالر کا ریونیو کمایا ۔ یہ ہماری ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔

نیکسلوجک کمپنی کا ایک منظر
نیکسلوجک کمپنی کا ایک منظر

27سال بعد جب میں نے 2021 میں اس کمپنی کو بیچا تو اس کے 100ملازم تھے ، اور تیس ملین ڈالر سال کا ریونیو تھا۔ اس کے بعد تو بس کامیابیوں کا سلسلہ چل پڑا۔ اور آج دنیا بھر کے چار بر اعظموں میں میرے متعدد کاروبار ہیں۔

لیکن میں نے امریکہ آکر صرف اپنے اور اپنے خاندان ہی کے خواب پورے نہیں کیے ،زلقی خان نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا ،بلکہ میں نے ان لوگوں کےلئے بھی کام کیا جو کوئی خواب تو دیکھ سکتے ہیں لیکن اسے پورا کرنے کی سکت نہیں رکھتے ۔

"ہیومن ایمپاور منٹ اینڈ ویلفئیر ٹرسٹ"

2012 میں بنگلہ دیش کے محمد یونس کی طرز پر میں نے پاکستان، روانڈا ، کینیا اور یوگنڈا میں غریب ترین لوگوں بالخصوص خواتین کو بلا سود مائیکرولون دینے کےلئے ، "ہیومن ایمپاور منٹ اینڈ ویلفئیر ٹرسٹ" قائم کیا جس میں ذاتی طور پر سات لاکھ ڈالر شامل کیے ۔

آج پاکستان میں کراچی سے گلگت تک سولہ شہروں میں ہمارے سنٹرز ہیں جہاں ہم اب تک ساڑھے چار ہزار سے زیادہ لوگوں کو بلا سود چھوٹے قرضے دے کراپنے پاؤں پر کھڑا کر چکے ہیں ۔ جب کہ افریقی ملکوں ، یوگنڈا ، روانڈا اور کینیا میں لگ بھگ 120 لوگوں کو مستفید کر چکے ہیں۔ ہم 2027 تک اس کا دائرہ دس ملکوں تک پھیلا نے کا ارادہ رکھتے ہی۔

زلقٰی خان نے کہا کہ جب کبھی وہ پاکستان جا کر ان قرضوں سے مستفید ہونے والی خواتین سے ملتے ہیں اور وہ اپنی زندگی میں آنے والی مثبت تبدیلی پر خوش ہو کر انہیں ڈھیروں ڈھیر دعائیں دیتی ہیں تو جو خوشی اور راحت مجھے گوگل یا ایپل سے ایک ملین ڈالر کا کام ملنے پر حاصل ہوتی ہے ان دعاؤں سےمجھےایک ارب ڈالر سے زیادہ کی خوشی حاصل ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس وقت ایک خوشحال اور کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی بیٹی آمنہ خان نے برکلے سے ایم بی اے کیاہےاور سلیکون ویلی میں ایک ٹیک کمپنی میں پرنسپل پروڈکٹ مینیجر ہیں ، بیٹے سعد خان نیو یارک یونیورسٹی میں ایم بی اے کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ جاب بھی کر ہے ہیں۔اور سب سے چھوٹے بیٹے عماد بزنس پڑھ رہےہیں۔

زلقی خان اپنی اہلیہ ربیکا ہارون بیٹی آمنہ خان اور بیٹوں سعد خان اور عماد خان کےساتھ
زلقی خان اپنی اہلیہ ربیکا ہارون بیٹی آمنہ خان اور بیٹوں سعد خان اور عماد خان کےساتھ

زلقی خان نے اپنی گفتگو سمیٹتے ہوئے کہا کہ میری خواہش ہے کہ جب میں دنیا سے جاؤں تو کم از کم ایک لاکھ لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لا چکوں۔ وہی تبدیلی جو میری زندگی میں میرے باس نے چھ ڈالر فی گھنٹہ کی ملازمت اور گرین کارڈ دلوا کر اور وہ ہنر سکھا کر پیدا کی تھی جس کی بدولت آج میرا کاروبار دنیا کے چار بر اعظموں میں پھیلاہوا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG