رسائی کے لنکس

 جب  میں امریکہ پہنچا: مجھے پہلا اور آخری جھوٹ کیوں بولنا پڑا؟ طلعت رشید


طلعت رشید کی امریکہ آنے کے بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ 35 برس پرانی تصویر
طلعت رشید کی امریکہ آنے کے بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ 35 برس پرانی تصویر

’’میں نےجس کمپنی میں اپنی ملازمت کا آغازایک گودام کی صفائی سے کیا تھا آج میں اسی کمپنی کا وائس پریذیڈنٹ ہوں‘‘۔ یہ کہنا تھا لگ بھگ 35 سال قبل پاکستان سے اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ آنے والے طلعت رشید کا جنہوں نے بتایا کہ انہوں نے امریکی سر زمین پر پہلا قدم ایک ایسے دولہا کے طور پر رکھا تھا جس کا شکاگو ائیر پورٹ پر خیر مقدم اس کی نئی نویلی دلہن نے کیا ۔

وائس آف امریکہ کو اپنی کہانی سناتے ہوئے شکاگو کے ایک کامیاب بزنس مین اور معروف پاکستانی امریکی ریپبلکن طلعت رشید نے کہا کہ امریکی شہریت رکھنے والی ان کی اہلیہ جمیلہ ایک مختصر وزٹ پرکراچی آئی تھیں۔ وہ خود اس وقت کراچی یونیورسٹی سے بزنس میں بیچلرز کے بعد اعلیٰ تعلیم کےلئےامریکہ جانے کی تیاری کر رہے تھے۔جھٹ پٹ شادی ہوئی جس کے بعد انکی اہلیہ امریکہ واپس چلی گئیں اور وہ ان کی اسپانسر شپ کے باعث چند ہی ماہ میں امریکہ پہنچ گئے کیوں کہ اس زمانے میں ویزےکے لئے بہت زیادہ وقت نہیں لگتا تھا۔

طلعت رشید امریکہ پہچنے کے بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ
طلعت رشید امریکہ پہچنے کے بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ

جب خواب ٹوٹناشروع ہوئے

یہاں تک تو سب بہت اچھا ہو ا لیکن جلد ہی مجھے اندازہ ہوا کہ یہاں کسی یونیورسٹی میں داخلے کے لئے جتنے ڈالر درکار ہیں وہ نہ تو کسی درخت پر یا کسی ڈالر ٹری پر اگتے ہیں اور نہ ہی روزگار کے مواقع کا کوئی ایسا ڈریم سنٹر ہے جو پاکستانی تعلیم یافتہ نوجوانوں کے خوابوں کی تکمیل کے لیے ان کی راہ تک رہا ہے۔

لیکن پھر میں نے ایک نیا خواب بنا ، یعنی کسی اچھے روزگار کاحصول۔اور اس کے لیے اپنی بیچلرز ڈگری کی بنیاد پر ملازمت کے لیے اپلائی کرنا شروع کیا۔ لیکن یہ خواب بھی اس وقت چکنا چور ہو گیا جب دیکھا کہ پاکستان کی ڈگری کی یہاں کوئی زیادہ قدر و قیمت نہیں ہے اور اس کی بنیاد پر یہاں معقول ملازمت ملنا ممکن نہیں ہے ۔

اس کے بعد میں نے ایک قدرے چھوٹا خواب دیکھا یعنی کسی بھی کم درجے کی ملازمت کا حصول۔

چھوٹی ملازمت کے لئے اپنی چھوٹی ڈگری کا استعمال

طلعت رشید
طلعت رشید

تاہم دو ماہ تک ہر روز صبح بس یا ٹرین پر بیٹھ کر نوکری کی تلاش اور ناکامی اور مایوسی کے چکر نے مجھ پر یہ راز افشا کیا کہ کسی بھی چھوٹی ملازمت کی راہ میں بڑی رکاوٹ میری بڑی ڈگری یعنی بزنس میں بیچلرز کی ڈگری بن رہی ہے۔

میں نے سوچاکیوں نہ کسی چھوٹی موٹی ملازمت کے لیے اپنی چھوٹی موٹی یعنی صرف ہائی اسکول گریجوایشن کی ڈگری ہی کو استعمال کیا جائے تاکہ اپنی نئی نویلی شریک حیات کو کسی بے روزگار شخص کے ساتھ تاحیات بندھن باندھنےکے پچھتاوے سے بچا سکوں۔

اس نسخےکے ہاتھ آتے ہی خود کو ایک ہائی اسکول گریجوایٹ بتاتے ہوئے ایک پمپ مینیو فیکچرنگ کمپنی میں اپلائی کیا ۔ انٹر ویو کے دن خوب تیار ہو کر کمپنی کے دفتر پہنچا ۔ کمپنی کے جرمن باس نے میری انگریزی سن کر کہا کہ تمہاری انگلش اتنی اچھی ہے تو کیا تم صرف ہائی اسکول گریجوایٹ ہو ؟ میں نے امریکی سر زمین پر پہلی بار جھوٹ بولا اور کہا کہ ہاں میں ہائی اسکول گریجوایٹ ہوں۔

لیکن ایک مکمل سچ یہ بھی بولا اور کہا کہ میرے والد پاکستان آرمی میں ہیں اور آرمی پبلک اسکولز میں تعلیم حاصل کرنےکی وجہ سےمیری انگلش اچھی ہے ۔باس نے کہا کہ ہمارے پاس اس وقت صرف اپنے وئیر ہاؤس یعنی گودام میں صفائی اور سامان کو ترتیب سے رکھنے کے لیے ایک ورکر کی ضرورت ہے کیا تم وہ کر لوگے؟ ۔ میں جو دو ماہ سے ملازمت کے لئےدھکے کھا رہا تھا، یہ چھوٹا سا موقع گنوانا افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔ فورً۱ کہا کہ ہاں میں کر لوں گا۔

چھوٹی ملازمت پر بڑی خوشی

باس نے پوچھا تم کب سے کام شروع کروگے تو میں نے کہا کہ ابھی سے۔ اس نے کہا کتنے پیسے لوگے ۔ میں نے کہا جتنے بھی دے دیں ۔ اس نے کہا پھر بھی کچھ تو بتاؤ ۔ اس وقت مزدوری کی فی گھنٹہ اجرت دو ڈالر تھی اور میری اہلیہ نے مجھے یہ ٹپ دےدی تھی کہ اگر آپ کو کوئی تین ڈالر آفر کرے تو وہ اچھی آفر ہو گی ۔ میں نے کہا کہ دو یا پانچ ڈالر جتنے بھی آ پ دےدیں۔ اس نے کہا کہ ہم پانچ ڈالر فی گھنٹہ دیں گے ۔

طلعت رشید اپنی گریجوایشن ڈگری کے ساتھ
طلعت رشید اپنی گریجوایشن ڈگری کے ساتھ

باس نےکہا کہ تم نے ابھی تو بہت اچھے کپڑے پہنے ہوئےہیں کل سے کام شروع کر لینا۔ تو یوں میں نے اپنے والد کے فوجی اور اپنے علمی اور خاندانی پس منظر کو اپنی چھوٹی سی ملازمت پر خوشی خوشی قربان کرتے ہوئے اگلے ہی روز سے کام شروع کر دیا ۔تاہم والد صاحب کو فون پرصرف یہی بتایا کہ بہت اچھی جاب مل گئی ہے ۔

اعلی تعلیم کےسفر کا آغاز

تو پھر اعلیٰ تعلیم کے خواب کا کیا بنا؟ اس سوال پر طلعت رشید بولے۔ اس کے لیے میں نےقرض لیا ، جو بہت آسانی سے مل گیا اورنارتھ ایسٹرن یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے بیچلرز کورس میں داخلہ لے کرہفتے میں دو دن شام کی کلا سز شروع کر دیں ۔ یہاں تک کے امتحان قریب آگیا ۔

ایک دن میں کمپنی کے وئیر ہاؤس کے ایک کونے میں اپنے لنچ ٹائم میں اپنے امتحان کی تیار ی کر رہا تھا کہ میرے باس وہاں آگئے ۔انہوں نے میرے ہاتھ میں بیچلرز لیول کی کمپیوٹر سائنس کی کتاب دیکھی تو حیرت سے پوچھا یہ کیا پڑھ رہے ہو ؟۔ میں نے کہا کہ امتحان کی تیاری کررہا ہوں ۔ انہوں نے کہا تم نے تو کہا تھا کہ تم ہائی اسکول گریجوایٹ ہو مگر تم کمپیوٹر سائنس کی یہ کتاب پڑھ رہے ہو تو کیا تم نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا۔؟ میں نے دل میں سوچا کہ یہ اب مجھےنوکری سے نکال دے گالیکن میرے پاس اب سچ بولنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ میں نے کہا کہ جی ہاں میں نے جھوٹ بولا تھا کیوں کہ مجھے کوئی میری بیچلرز کی ڈگری کی وجہ سے ملازمت نہیں دے رہا تھا اور میں کئی ماہ سے ملازمت کےلیےدھکے کھارہا تھا۔

باس ہنس پڑا اور بولا تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا اور پھر اس نے مجھے اپنی کمپنی کے انتظامی شعبے میں ملازمت دے دی ۔میں نے دن رات محنت کر کے کمپیوٹر سائنس میں بیچلرز کیا ۔ ایک اور تعلیمی قرضہ لیا اور ڈیورائے یونیورسٹی الی نوائے سے ایم بی اے کیا، کمپنی میں ملازمت جاری رکھی اور ترقی کے مراحل طے کرتا گیا۔

طلعت رشید اپنی اہلیہ جمیلہ ، بیٹی صبا اور بیٹےفیصل رشید کے ساتھ
طلعت رشید اپنی اہلیہ جمیلہ ، بیٹی صبا اور بیٹےفیصل رشید کے ساتھ

اور آج اسی کمپنی کا جہاں ملازمت کا آغاز وئیر ہاؤس میں معمولی سے کارکن کے طور پر کیا تھا، وائس پریذیڈنٹ ہوں۔ پانچ سال تک رابرٹ مورس یونیورسٹی الی نوائے میں مینیجمنٹ اور کبھی کبھی بزنس بھی پڑھاتا رہا۔

، طلعت رشید نے جو شکاگو کے شہر بولنگ بروک میں ایک پرانےری پبلکن ہیں، بتایا کہ انہیں تجربے کی بنیاد پر 2016 میں بولنگ بروک کے سابق ری پبلکن مئیر راجر کلئیر نے پولیس اور فائر ڈپارٹمنٹ کی نگرانی سے متعلق پولیس اور فائر کمشنر کے عہدے پر متعین کیا ہے جو ایک جز وقتی ملازمت ہے اور جسے وہ تیرہ سال سے بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ اس سے قبل 2003 سے وہ شہر کے پلاننگ اور زوننگ شعبے کےکمشنر بھی رہے ہیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ سیالکوٹ اوربولنگ بروک سسٹرز ایسو سی ایشن کے قیام کے لیے میری کوششوں کےنتیجےمیں سابق مئیر نےایک وفد کے ساتھ سیالکوٹ جا کر اسے باضابطہ طورپر قائم کیا تھا ۔ اب جلد ہی سیالکوٹ سے ایک وفد یہاں امریکہ کے دورےپر آنے والا ہے ۔

بولنگ بروک کے سابق مئیر راجر کلئیر سیالکوٹ۔بولنگ بروک سسٹر سٹیز ایسو سی ایشن کے قیام کے دورے کے دوران،ان کےساتھ سیالکوٹ چیمبرز آف کامرس کے صدر اور چئیر مین فار ورڈ اسپورٹس خواجہ مسعود بیٹھے ہیں جن کی کمپنی نے 2018 میں فیفا ورلڈ کپ میں استعمال ہونے والی فٹ بال بنائی تھی۔
بولنگ بروک کے سابق مئیر راجر کلئیر سیالکوٹ۔بولنگ بروک سسٹر سٹیز ایسو سی ایشن کے قیام کے دورے کے دوران،ان کےساتھ سیالکوٹ چیمبرز آف کامرس کے صدر اور چئیر مین فار ورڈ اسپورٹس خواجہ مسعود بیٹھے ہیں جن کی کمپنی نے 2018 میں فیفا ورلڈ کپ میں استعمال ہونے والی فٹ بال بنائی تھی۔

طلعت رشید نے کہا ،میں آج ایک کامیاب بزنس مین ہوں، اس سرزمین پر میرا سب سے پہلے خیر مقدم کرنے والی میری اہلیہ نے مجھے اس مقام تک پہنچنے اور میرے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا کر کامیاب زندگی گزارنے کے قابل بنانے میں قدم قدم پر میرا ساتھ دیا جس کے لیے میں ان کا ہر وقت شکریہ ادا کرتا ہوں ۔

میں اپنی کمپنی کے جرمن باس کا آج بھی شکر گزار ہوں جس نے مجھے اس سرزمین پر روزگار کا وہ پہلا موقع فراہم کیا جو مجھے اس مقام تک لانےکی وجہ بنا۔

میرا باس آج اپنے عملے کے سامنے میری تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ وہ شخص ہے جس نے اس کمپنی کے گودام کی صفائی سے ملازمت شروع کی تھی اور آج یہ اپنی محنت اور ذہانت سے کمپنی کا وائس پریذیڈنٹ بن چکا ہے ۔

فورم

XS
SM
MD
LG