|
ویب ڈیسک —شام کی سیکیورٹی فورسز اور معزول صدر بشار الاسد کے حامیوں کے درمیان جھڑپوں اور انتقامی کارروائیوں میں دو دن کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔
شام میں انسانی حقوق پر نظر رکھنے والے برطانیہ میں قائم گروپ 'سیرین اوبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ نے ہفتے کو جاری کردہ رپورٹ میں کہا ہے کہ 14 سال سے جاری شام کے تنازع میں یہ اب تک سب سے شدید ہلاکت خیز تصادم کے واقعات ہیں۔
ہفتے کو اپنی رپورٹ میں آبزرویٹری نے بتایا ہے کہ جھڑپوں میں 745 عام شہری ہلاک ہوئے ہیں جنہیں بہت قریب سے گولیاں ماری گئی ہیں۔ اس کے علاوہ شامی سیکیورٹی فورسز کے 125 اہل کار جب کہ بشار الاسد کے حامی مسلح گروہوں کے 125 جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ لتاکیہ (لاذقیہ) شہر میں کئی علاقوں کو بجلی اور پانی کی فراہمی بھی بند ہو چکی ہے۔
بحیرۂ روم کے ساحل پر واقع شام کے صوبے لتاکیہ میں حکومتی فورسز اور بشارالاسد کی حامی ملیشیاؤں کے درمیان جھڑپوں کا آغاز جمعرات کو ہوا تھا۔
اس صورتِ حال کو دمشق میں قائم ہونے والی نئی حکومت کے لیے بڑا چیلنج قرار دیا جارہا ہے۔
شام میں اس وقت برسرِ اقتدار حکمراں فورس ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) نے گزشتہ برس دسمبر میں تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے صرف 11 دن میں ملک کے کئی شہروں پر قبضہ کر لیا تھا اور دارالحکومت دمشق میں داخل ہوکر 24 سال سے حکومت کرنے والے بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔
انتقامی کارروائیاں
حکومت کے حامی مسلح افراد نے جمعے کو اقلیتی علوی فرقے کے افراد کے قتل کے لیے کارروائیاں شروع کی تھیں۔ شام کے سابق حکمراں اسد خاندان کا تعلق بھی اسی فرقے سے تھا۔ اسد خاندان کی اس فرقے میں خاطر خواہ سیاسی حمایت پائی جاتی ہے۔
مبصرین کے مطابق سنی مسلحہ افراد کی انتقامی کارروائیاں ایچ ٹی ایس کے لیے بڑا دھچکا ہیں۔
بحیرۂ روم کے کنارے شام کے صوبے لتاکیہ اور طرطوس میں علوی فرقے کا اثر و رسوخ زیادہ ہے۔ ان ہی علاقوں میں سابق حکمران خاندان اسد کے حامی مسلحہ گروپس ہیں۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق لتاکیہ اور طرطوس کے جن علوی اقلیت کے قصبوں اور دیہات پر حملے ہوئے ہیں۔ وہاں کے مقامی افراد نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ علوی فرقے کے افراد کو قتل کرنے کے علاوہ گھروں میں لوٹ مار بھی کی گئی ہے۔
طرطوس میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں برنیاس شہر کے ایک رہائشی نے ’اے پی‘ کو بتایا ہے کہ کئی علاقوں میں بے گور و کفن لاشیں گھروں، گلیوں اور مکانات کی چھتوں پر پڑی ہیں اور کشیدہ صورتِ حال کی وجہ سے کوئی انہیں لانے بھی نہیں جاسکتا۔
بانیاس سے نقل مکانی کرنے والے 57 سالہ علی شہا کا کہنا ہے کہ ان کے ہمسایوں، ساتھ کام کرنے والوں اور رشتے داروں میں 20 علوی کمیونٹی کے لوگوں کو قتل کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ علوی کمیونٹی پر یہ حملے ’’انتقامی قتل‘‘ ہے اور اسد حکومت کے جرائم کا بدلہ اس کمیونٹی سے لیا جا رہا ہے۔
مقامی افراد کے مطابق علوی کمیونٹی پر حملے کرنے والوں میں قریبی دیہات سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ غیر ملکی جنگجو بھی شامل ہیں۔
حملے رکنے کی اطلاعات
سیرین اوبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ہفتے کو انتقامی حملے تھم گئے ہیں۔ تاہم علوی کمیونٹی کے سویلین افراد کے قتل کے واقعات کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ یہ شامی تنازع کی تاریخ کا ان کے بقول سب سے بڑا قتلِ عام تھا۔
اس سے قبل ہیومن اوبزرویٹری نے چھ سو سے زائد ہلاکتوں کی اطلاعات دی تھیں۔ تاہم اس کی سرکاری سطح پر تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
شام کی سرکاری نیوز ایجنسی نے وزارتِ دفاع کے ذرائع سے رپورٹ کیا ہے کہ شامی فورسز نے اسد کے حامی علوی گروپس کے زیرِ قبضہ زیادہ تر علاقہ دوبارہ حاصل کرلیا ہے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ حالات کو ’’بتدریج معمول پر لانے کے لیے‘‘ شام کے ساحلی خطے کی جانب جانے والی سڑکیں بند کر دی گئی ہیں۔
اسد خاندان کے دورِ حکومت میں علوی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد فوج اور سیکیورٹی ایجنسیوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔
شام کی نئی حکومت الزام عائد کرتی ہے کہ یہ بشار الاسد کے وفادار سابق عہدے دار گزشتہ کئی ہفتوں سے ملک کی نئی سیکیورٹی فورسز پر حملے کر رہے ہیں۔
اس رپورٹ میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔