ویب ڈیسک—کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد علاقے میں تاحال سیکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے تاہم بولان میں صورتِ حال اب بھی کشیدہ ہے۔
حملے میں یرغمال بنائے گئے مسافروں میں سے سیکیورٹی ذرائع کے مطابق 155 کو بازیاب کرالیا گیا ہے جنہیں پہلے کوئٹہ ریلوے اسٹیشن کے پولیس تھانے لایا گیا اور شناخت کے بعد گھروں میں منتقل کیا گیا۔
کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پہنچنے والے مسافر تھکن سے چور اور پریشان دکھائی دیے۔ بعض مسافر میڈیا سے بات کیے بغیر چلے گئے جب کہ کئی نے اپنی روداد سنائی۔
یوسف بشیر بھی جعفر ایکسپریس کے ذریعے کوئٹہ سے پنجاب کے علاقے بہاولپور جار رہے تھے۔وہ بھی اُن مسافروں میں شامل ہیں جنہیں مسلح افراد کی جانب سے رہائی ملی ہے۔
مچھ ریلوے اسٹیشن پہنچنے پر انہوں نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حملے کے بعد پوری ٹرین میں چیخ وپکار شروع ہوگئی تھی۔
بشیر احمد کے بقول "اُن لوگوں نے ہم سے کہا کہ اترو اور پیچھے مڑ کر مت دیکھنا ۔ میں اپنی بیوی اور دو بچوں کے ہمراہ ٹرین سے اترا اور کئی کلو میٹر پیدل سفر کیا۔"
انہوں نے بتایا کہ پہاڑی علاقوں اور مشکل گرزگاہوں سے ہوتے ہوئے وہ ایک چھوٹے ریلوے اسٹیشن پر قیام کیا جہاں سے ایک ٹرین کے ذریعے مچھ اسٹیشن پہنچے۔
بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے)کے عسکریت پسندوں نے منگل کی دوپہر لگ بھگ ایک بجے بولان کے علاقے مشکاف میں مسافر ٹرین جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کیا تھا۔ یہ مقام کوئٹہ سے تقریباً 140 کلومیٹر دور ہے۔
'فائرنگ کے بعد سب سیٹوں کے نیچے چھپ گئے'
بازیاب ہونے والے مسافر شفیق الرحمن نے بتایا کہ کوئٹہ سے صبح روانہ ہوئے تو ڈھاڈر تک سفر خوش گوار تھا لیکن مشکاف کے علاقے میں ٹنل کے پاس اچانک ایک دھماکے کی آواز آئی اور بعد میں شدید فائرنگ شروع ہوگئی۔
ان کے مطابق اچانک رونما ہونے والے واقعے نے تمام مسافروں کو ہلا کر رکھ دیا۔ پھر کچھ ہی دیر بعد مسلح افراد ٹرین میں داخل ہوئے۔
شفیق الرحمن کے بقول "جب وہ ہمارے ڈبے میں پہنچے تو ہمارے ساتھ خواتین اور بچوں کو دیکھ کر کہا کہ آپ کے ساتھ فیملی ہے ہم آپ کو کچھ نہیں کہیں گے۔ پھر کچھ دیر بعد انہوں نے ہمیں ٹرین سے اترنے کو کہا۔"
جعفر ایکسپریس واقعے کے ایک اور عینی شاہد اور مسافر غلام نبی نے بتایا کہ جیسے ہی ٹرین ٹنل میں داخل ہوئی تو فائرنگ کی آوازیں سنائی دینے لگی جس کے بعد بھگدڑ مچ گئی اور ہم سب ٹرین کی سیٹوں کے نیچے چھپ گئے۔
غلام نبی کے بقول " مجھے نہیں معلوم کہ مسلح افراد کی تعداد کتنی تھی اور یہ بھی نہیں پتا کہ انہوں نے کتنے افراد کو ہلاک کیا۔ ہم بڑی مشکل صورتِ حال سے گزر کر بحفاظت کوئٹہ پہنچے ہیں۔"
بی ایل اے نے دعویٰ کیا ہے کہ 200 سے زیادہ یرغمال اب بھی ان کے پاس موجود ہیں جنہیں حکومت کی حراست میں موجود بلوچ قیدیوں کی رہائی کے بدلے آزاد کیا جائے گا۔
دوسری جانب سیکیورٹی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ 155 یرغمالوں کو بازیاب کرالیا گیا ہے جب کہ فورسز کے آپریشن کے دوران 27 دہشت گرد مارے گئے ہیں۔
دہشت گردی کے اس واقعے سے متعلق پاکستان فوج کی طرف سے کوئی بیان اب تک جاری نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ بعض معلومات عسکری ذرائع سے فراہم کی گئی ہیں۔ آزاد ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے معلومات صرف سیکیورٹی ذرائع یا پھر کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بی ایل اے کی طرف سے جاری کی جارہی ہیں جن کی مکمل تصدیق ابھی نہیں ہوپائی۔
منگل اور بدھ کی درمیانی شب جب ویگنوں کے ذریعے بازیاب ہونے والے مسافروں کو کوئٹہ پہنچایا گیا تو وہاں کئی افراد اپنے پیاروں کی خیرت دریافت کرنے کے لیے موجود تھے، جن کے حوالے سے تاحال کوئی خیر خبر نہیں ہے۔
ایک ایسی ہی خاتون نے وہاں موجود کمشنر کوئٹہ ڈویژن سے اپنے بھائی کے بارے میں دریافت کیا۔
خاتون کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی موجود ہے جس میں انہیں زار و قطار روتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔گفتگو کے دوران خاتون جذباتی ہو گئیں اور کہنے لگیں کہ "تمام پنجابیوں کو ایک جگہ اکٹھا کر کے ان پر ایک ہی بار بم گرادیا جائے۔"
انہوں نے حکام سے سوال کیا کہ "ہم اپنے بچوں کے رزق کے لیے کہاں جائیں؟"
ان کا مزید کہنا تھا کہ"وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی کہاں ہیں؟ انہیں یہاں بلایا جائے اور وفاقی وزیر محسن نقوی کہاں ہے جو کہتے تھے کہ یہ دہشت گرد ایک ایس ایچ او کی مار ہیں؟
فورم