جمعرات کو سب سے پہلے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کو تقریر کے لیے فلور دیا گیا ۔ وزیرِ دفاع نے بلوچستان ٹرین ہائی جیکنگ واقعے کی تفصیلات بتائے بغیر پی ٹی آئی اور اپوزیشن لیڈر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ۔
بعض مہاجرین کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان واپس جانے کے لیے تیار ہیں لیکن اس کے لیے انہیں وقت دیا جائے۔
ماہرین کے مطابق بلوچ عسکریت پسند گروپس میں نمایاں تبدیلی یہ آئی ہے کہ ان کی قیادت ایسے افراد کی جانب منتقل ہورہی ہے جو متوسط طبقے اور شہری پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں
بلوچستان کے شہر کوئٹہ کے نواحی پہاڑی سلسلے چلتن میں سن 80 کی دہائی تک نایاب مارخوروں کی تعداد 200 سے بھی کم ہو گئی تھی لیکن اب ان کی تعداد میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ کیسے ہوا؟ جانیے مرتضیٰ زہری کی اس رپورٹ میں۔
جعفر ایکسپریس حملے کے آپریشن کی نگرانی کرنے والے ایک مقامی فوجی عہدے دار نے معلومات کی تصدیق کی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ یہ حملہ افغانستان میں موجود دہشت گرد سرغنہ کی ہدایت پر کیا گیا،ترجمان نے کہا کہ افغان عبوری حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکے۔ طالبان حکومت ماضی میں وہ ایسے تمام تر الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر قبضے اور مسافروں کو یرغمال بنائے جانے کے بعد دو دن تک سکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری رہا۔ ان دو دنوں میں پیش آنے والے واقعات کا خلاصہ بیان کر رہے ہیں مرتضی زہری۔
جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد تمام یرغمالوں کو بازیاب کرا لیا گیا ہے۔ تاہم کچھ یرغمال ایسے بھی تھے جو دہشتگردوں کی تحویل سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ مرتضیٰ زہری نے ایسے کچھ سروائیورز سے بات کی ہے۔ سنتے ہیں جمشید اجمل نامی نوجوان کی روداد ان کی اپنی زبانی
بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے اور مسافروں کو یرغمال بنانے کی ذمے داری کالعدم عسکری تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی ہے۔ یہ تنظیم کیسے قائم ہوئی اور یہ اتنی بڑی کارروائیاں کیسے کر رہی ہے؟ جانتے ہیں محمد ثاقب کی رپورٹ میں۔
سیکیورٹی ماہرین کا کہناہے کہ ٹرین پر حملہ اور مسافروں کو یرغمال بنانے کا یہ واقعہ کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں اور عسکری حکمتِ عملی میں تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔
مزید لوڈ کریں
No media source currently available