پولیس حکام اور سول انتظامیہ کے مطابق پیر اور منگل کی درمیانی شب فائرنگ کا واقعہ لوئر کرم کے علاقے بگن میں اس وقت پیش آیا جب سیکیورٹی اہلکار مبینہ عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن میں مصروف تھے۔
افغانستان سے ملحقہ شمالی و جنوبی وزیرستان سمیت خیبر پختونخوا کے بنوں ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک اور لکی مروت میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلعے خیبر میں انسدادِ پولیو مہم میں سیکیورٹی کے فرائض انجام دینے والے ایک پولیس اہلکار کو پیر کی صبح نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا ہے۔
ضلع کرم کے پولیس اور انتظامی عہدے داروں نے رابطے پر متحارب قبائلی فریقوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کی تصدیق کی ہے۔ مقامی پولیس کے مطابق فائرنگ کے واقعات میں زخمی ہونے والے دو افراد کو پاڑا چنار کے ضلع ہیڈ کوارٹر اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں چھ مبینہ عسکریت پسند بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے کرم کے علاقے بگن سمیت گرد و نواح میں امن و امان اور ریاستی عمل داری کی بحالی کے لیے مبینہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی دوسرے روز بھی جاری ہے جب کہ ان علاقوں سے شہریوں کا انخلا بھی شروع ہو گیا ہے۔
اتوار کی صبح پشاور میں خیبر پختونخوا کے چیف سیکرٹری کی زیر صدارت ایک اعلی سطح کے اجلاس میں کارروائی شروع کرنے کی منظوری دی گئی
کرم کے سول اور پولیس عہدے داروں کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے ضلع کرم کے لیے تھل کینٹ سے جانے والے امدادی قافلے پر راکٹ حملہ کیا گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فوج خیبرپختونخوا میں جاری فوجی کارروائیوں کے تناظر میں سیاسی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق مبینہ عسکریت پسندوں کے ساتھ رُکن صوبائی اسمبلی جوہر محمد خان کی سربراہی میں جرگے نے پیر کو مغویوں کی بازیابی کے لیے رابطے کیے ہیں۔
ہفتے کو رات گئے ختم ہونے والے جرگے میں حکام نے اغواء کار طالبان عسکریت پسندوں کے مطالبات پر غور کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
سرکاری بیان کے مطابق گزشتہ روز مغویوں کی بازیابی کی کارروائی کے دوران تین افراد زخمی ہوئے تھے جو فوجی اسپتال میں زیرِ علاج ہیں اور ان میں سے دو کی حالت نازک ہے۔
مقامی افراد کے مطابق جمعرات کی صبح اٹھ بجے لکی مروت سے ایک گاڑی اٹامک انرجی کمیشن اف پاکستان کے اہلکاروں کو لے کر قبول خیل کی طرف جا رہی تھی۔
صدہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی محمد جمیل کہتے ہیں کہ قافلے میں شامل 10 ٹرکوں میں بگن قصبے کے 23 اور 24 نومبر کے درمیانی شب کے واقعے میں متاثرین کے لیے امدادی سامان ہے جو مقامی انتظامیہ کے ذریعے تقسیم کیا جائے گا۔
خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے کرم کے ڈپٹی کمشنر کے قافلے پر حملے کے بعد صوبائی حکومت نے امن معاہدے پر دستخط کرنے والے عمائدین سے باز پرس اور ملوث ملزمان کے ساتھ ساتھ ان کی سرپرستی کرنے والوں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق ڈپٹی کمشنر کرم پر بگن کے علاقے میں نامعلوم شرپسندوں نے فائرنگ کی۔
معاہدے میں کہا گیا ہے ہے اگر کسی علاقے میں کوئی واقعہ ہوتا ہے تو امن کمیٹیاں فوری متحرک ہوں گی۔ دوسرا فریق اس پر کوئی جوابی کارروائی نہیں کرے گا۔
بعض مبصرین کے مطابق وفاقی حکومت اور پاکستان تحریکِ انصاف کے مابین اختلافات اور اسلام آباد کے افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان سے تعلقات میں کشیدگی کی وجہ سے بھی پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کو کارروائیوں میں تیزی لانے کا موقع ملا ہے۔
پاڑہ چنار روڈ کی مسلسل بندش کے خلاف سب سے زیادہ احتجاجی دھرنے اور مظاہرے ملک کے سب سے بڑے اور اہم تجارتی شہر کراچی میں ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں شہر مں آمدورفت بری طرح متاثر ہے۔
پاڑہ چنار میں جمعے کو احتجاجی دھرنا آٹھویں روز بھی جاری ہے جب کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، پشاور، کراچی اور دیگر شہروں میں مطالبات کے حق میں دھرنے اور مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔
مزید لوڈ کریں