رسائی کے لنکس

کشمیر: بھارتی تفتیشی ادارے کے صحافیوں اور انسانی حقوق کارکنوں کے دفاتر اور گھروں پر چھاپے


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے قومی تفتیشی ادارے نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے ) نے کشمیر میں 10 الگ الگ مقامات پر چھاپے مارے ہیں جن میں اخبارات اور غیر سرکاری تنظیموں کے دفاتر بھی شامل ہیں۔

این آئی اے نے بدھ کی صبح جن مقامات پر چھاپے مارے ان میں انگریزی اخبار ٰ'گریٹر کشمیر'، اس سے وابستہ بعض افراد، دو صحافیوں، انسانی حقوق کے رضا کاروں، سیاسی کارکنوں کے گھر اور سرینگر کی ڈل جھیل کے قریب واقع ایک ہاوٴس بوٹ شامل ہیں۔

واضح رہے کہ 'گریٹر کشمیر' نامی ادارے کے تحت اردو روزنامہ 'کشمیر اعظمیٰ'، انگریزی اور اردو میں جرائد بھی شائع کیے جا رہے ہیں۔

'گریٹر کشمیر' کے عملے میں شامل ایک شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ این آئی اے کی ٹیم کے ہمراہ بھارت کی وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف اور مقامی پولیس کی نفری بھی تھی۔ ان اداروں کے اہلکاروں نے سرینگر کے میڈیا حب 'مشتاق پریس انکلیو' میں واقع 'گریٹر کشمیر' کے مرکزی دفتر پر چھاپہ مارا۔

ان کا کہنا تھا کہ سرکاری اہلکاروں نے اخبار کے مالک و مدیر فیاض احمد کلو اور چیف منیجر رشید مخدومی کو فون کر کے انہیں فوری طور پر وہاں پہنچنے کے لیے کہا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ٹیم نے اخبار اور اس سے منسلک ایک فلاحی ادارے کے کھاتوں کے کچھ ریکارڈ اور کمپیوٹرز کی ہارڈ ڈسکس ضبط کیں۔ اس کے علاوہ سابقہ ایگزیکٹو ایڈیٹر ظہیر الدین اور ادارے سے وابستہ ایک سابق صحافی پرویز بخاری کے بارے میں بھی سوالات کیے۔ جب کہ موجودہ ملازمین کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی حاصل کیں۔

نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے جن دیگر مقامات پر چھاپے مارے ان میں انسانی حقوق کے ممتاز کارکن خرم پرویز، صحافی ظہیر الدین، استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں کے اتحاد 'حریت کانفرنس' کے ایک کارکن محمد یوسف صوفی، 'اتھہ روٴٹ' نامی ایک این جی او سے وابستہ بعض افراد کی رہائش گاہیں اور دفاتر شامل ہیں۔

سرینگر کیڈل جھیل کے قریبی علاقے میں محمد امین نامی ایک شخص کے ہاؤس بوٹ ہلٹن کی بھی تلاشی لی گئی۔

اختلافِ رائے کو دبانے کی کوشش کا الزام

کشمیر کی کئی سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں نے این آئی اے کی اس کارروائی پر شدید تنقید اور مذمت کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ موجودہ بھارتی حکومت ایجنسی کو کشمیر میں اختلاف رائے کو دبانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

کئی لوگوں نے سوشل میڈیا کا رُخ کر کے ان چھاپوں کو اُن افراد کو 'ڈرانے اور ہراساں کرنے' کی ایک کوشش قرار دیا ہے جو کشمیر پر ہندوستانی بیانیے کی توثیق کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

سابق وزیر اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما محبوبہ مفتی نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب جموں و کشمیر کی زمین اور وسائل کو لوٹا جا رہا ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ اخبارات کے صفحات ذیابیطس اور یوگا کے بارے میں مضامین سے بھرے ہوں۔

کشمیر: 'بیٹا اپنے ایڈمیشن کے لیے گیا تھا، بے گناہ مارا گیا'
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:36 0:00

ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی کے 'سب کچھ ٹھیک ہے' کے نعرے میں، سچائی ہی سب سے زیادہ ضائع ہونے والی شے ہے۔ جو بھی صحافی گوڈی میڈیا (وزیرِ اعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت کا حامی ) کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہے، اسے نشانہ بنایا جاتا ہے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ این آئی اے کو حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی 'پالتو ایجنسی' بنا دیا گیا ہے اور اسے اختلاف رائے رکھنے والوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

ان کے بقول تفتیشی ادارے کی کشمیر میں تازہ کارروائی بھارت کی حکومت کی طرف سے آزادیٔ اظہار و اختلاف رائے کا گلہ دبانے کی ایک اور مثال ہے۔

چھاپوں کا صحافتی پیشے یا سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں

تاہم این آئی اے کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ روزنامہ 'گریٹر کشمیر' کے دفتر اور کچھ صحافیوں کے گھروں پر چھاپے ان کے صحافتی کام اور دوسری پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے سلسلے میں نہیں تھے۔ بلکہ کشمیر اور بنگلور میں کام کرنے والی بعض غیر سرکاری امدادی تنظیموں اور ان سے وابستہ افراد کی مقامی اور غیر ملکی ذرائع سے حاصل کردہ رقوم سے متعلق تھیں۔ ان کے بقول یہ رقوم علیحدگی پسندانہ اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کے سلسلے میں رجسٹر کیے گئے ایک کیس کے حوالے سے مارے گئے۔

این آئی اے نے بعد ازاں اس سلسلے میں باضابطہ بیان بھی جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اس نے یہ کیس تعزیراتِ ہند کی دفعات 120-بی اور 124-اے جب کہ غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق قانون کی مختلف دفعات کے تحت آٹھ اکتوبر کو رجسٹر کیا تھا۔

بیان کے مطابق کیس کا تعلق کچھ نام نہاد این جی اوز کی خیراتی سرگرمیوں کے نام پر بھارت اور بیرون ملک سے فنڈز جمع کرنے اور پھر ان فنڈز کو جموں و کشمیر میں علیحدگی پسندی اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کو انجام دینے کے لیے استعمال کرنے سے ہے۔

آرٹیکل 370 کے خاتمے کا ایک سال: کشمیر کے صحافیوں نے کیا دیکھا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:08 0:00

بیان میں مزید کہا گیا کہ جن لوگوں کے گھروں کی تلاشی لی گئی ان میں 'جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی' کے کو آرڈینیٹر خرم پرویز اور ان کے ساتھیوں پرویز احمد بخاری اور پرویز احمد مٹہ کے گھر اور بنگلور سے تعلق رکھنے والی ساتھی سواتی شیشادری، لاپتہ افراد کے والدین کی تنظیم 'ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس اپئرڈ پرسنز' (اے پی ڈی پی) کی چیئر پرسن پروینہ آہنگر کی رہائش گاہ اور ان کادفتر، جب کہ غیر سرکاری تنظیم 'اٹھہ روٴٹ' اور گریٹر کشمیر ٹرسٹ کے دفاتر شامل ہیں۔

این آئی اے نے ان چھاپوں کے دوران متنازع دستاویزات اور الیکٹرانک مواد ضبط کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔

این آئی اے نے کہا ہے کہ اس معاملے میں مزید تفتیش جاری ہے۔

غیر سرکاری تنظیموں کے خلاف چھاپے جاری

این آئی اے نے جمعرات کو مسلسل دوسرے دن بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں اور بعض فلاحی اداروں کے دفاتر اور ان کے منتظمین کے گھروں پر چھاپے مارنے کا سلسلہ نہ صرف جاری رکھا۔ بلکہ چھاپوں کا سلسلہ نئی دہلی تک بڑھا دیا۔

ایجنسی کے ذرائع نے بتایا کہ جمعرات کو نو مقامات پر چھاپے مار کر تلاشی کے دوران اہم دستاویزات، موبائل فونز اور کمپیوٹر ہارڈ ڈرائیوز سمیت دوسرا مواد ضبط کیا گیا۔ جن کا باریک بینی سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔

سی آر پی ایف اور مقامی پولیس کی اہلکاروں کت ہمراہ وادی میں جن چار غیر سرکاری تنظمیوں کے دفاتر پر چھاپے مارے گئے اُن میں فلاح عام ٹرسٹ، جموں و کشمیر یتیم فاؤنڈیشن، جموں و کشمیر سالویشن موومنٹ اور جموں و کشمیر وائس آف وکٹمز شامل ہیں۔

دریں اثنا ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس اپئرڈ پرسنز (اے پی ڈی پی) کی چیئر پرسن پروینہ آہنگر نے ایک بیان میں اس الزام کی سختی سے تردید کی کہ یہ تنظیم امدادی رقوم کا غلط استعمال کر رہی ہے۔

سرینگر سے جاری کیے گئے بیان میں انہوں نے کہا کہ تنظیم کو آج تک جو بھی مالی امداد فراہم کی گئی وہ لاپتا افراد کے خاندانوں کی کفالت، قانونی معاونت کرنے، تنظیم کے دفتر کو چلانے، سمینارز منعقد کرنے اوردوسری متعلقہ سرگرمیوں پر خرچ کی گئی۔ اس کا مکمل حساب کتاب بھی موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ این آئی اے نے بُدھ کو سرینگر میں تنظیم کے دفتر پر چھاپہ مارنے کے دوران وہ سارا مواد بھی اپنی تحویل میں لے لیا ہے جو جموں و کشمیر میں جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی دیگر مبینہ پامالیوں کے سلسلے میں برسوں کی محنت کے بعد اکٹھا کیا گیا تھا اور یہ خدشہ ظاہر کیا کہ اسے متعلقہ ایجنسیاں ان لوگوں کے خلاف انتقامی کارروائی کے لیے استعمال کر سکتی ہیں جنہوں نے اے پی ڈی پی کے مشن میں اس کا تعاون کیا ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG