رسائی کے لنکس

بھارتی حکومت کی لداخ کو محدود خود مختاری دینے کی یقین دہانی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی مرکزی حکومت نے لداخ میں بودھ مت کے پیروکاروں کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ لداخ کو محدود خود مختاری دے دی جائے گی۔

حکومت نے بودھ قیادت کو علاقے کے لوگوں کی اراضی اور سرکاری ملازمتوں کے تحفظ سمیت تعلیمی وظائف اور روزگار کے بہتر مواقعوں کی فراہمی کے لیے بہت جلد نیا قانون متعارف کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

لداخ کو یہ اندرونی خود مختاری بھارت کے آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت دی جا رہی ہے۔

بھارت کے آئین کی دفعہ 244 کے تحت ایسی شقیں شامل ہیں جو اس وقت آسام، میگھالیہ، تری پورہ اور میزورام کے قبائلی خود مختار اضلاع میں مقامی لوگوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے قوانین بنانے کا اختیار دیتی ہیں۔

مقامی کونسل کے انتخابات کے بائیکاٹ کی دھمکی

یہ یقین دہانیاں لداخ کی بودھ قیادت کے اس مطالبے کے جواب میں کرائی گئی ہیں کہ سابقہ ریاست جموں و کشمیر کے اس پہاڑی خطے کو آسام کے قبائلی علاقے بوڈو لینڈ کی علاقائی کونسل کی طرز پر اختیارات دیے جائیں۔

بودھ قیادت نے اعلان کیا تھا کہ اگر ان کا یہ مطالبہ پورا نہ ہوا تو تمام مقامی تنظیمیں لداخ ہل ڈیولپمنٹ کونسل لیہہ کے انتخابات کا بائیکاٹ کریں گی۔ یہ انتخابات جلد ہونے والے ہیں۔

جموں و کشمیر کو دو لخت کیا گیا

بھارت کی مرکزی حکومت نے گزشتہ سال اگست میں نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی خود مختاری ختم کر کے ریاست کو براہِ راست مرکز کے زیرِ کنٹرول دو حصوں یعنی جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا تھا۔

اس کے بعد جموں اور وادیٴ کشمیر جو اب یونین ٹریٹری آف جموں اینڈ کشمیر کہلاتے ہیں، کے لیے ایک نیا قانونِ اقامت تشکیل دیا گیا۔

آرٹیکل 370 کے خاتمے کا ایک سال: کشمیری وی لاگر پابندیوں سے تنگ
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:05 0:00

نئے قانونِ اقامت نے سابقہ ریاست میں جس میں لداخ کا خطہ بھی شامل تھا، 1927 سے نافذ اسٹیٹ لا کی جگہ لے لی ہے۔ سابقہ قانون کے تحت صرف اس کے پشتنی یا حقیقی باشندے ہی ریاست میں غیر منقولہ جائیداد خریدنے اور بیچنے اور سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے کے اہل تھے۔

اس قانون کے تحت ریاست کے مستقل باشندوں کو ایک خصوصی دستاویز جاری کی جاتی تھی جو اسٹیٹ سبجیکٹ سرٹیفیکیٹ کہلاتی تھی۔

جموں و کشمیر کی آبادی کے تناسب کے تحفظ کے قوانین کا خاتمہ

متنازع ریاست کو یہ خصوصی پوزیشن دفعہ 370 کے تحت حاصل تھی جسے 1950 میں ایک صدارتی فرمان کے ذریعے آئینِ ہند میں شامل کیا گیا تھا۔

دفعہ 370 کی منسوخی کے ساتھ ہی اس کی ایک ذیلی شق دفعہ 35 اے بھی ختم ہو گئی۔

دفعہ 35 اے کے تحت نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں زمینیں اور دوسری غیر منقولہ جائیداد خریدنے، سرکاری نوکریاں اور وظائف حاصل کرنے، ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف اس کے پشتنی یا مستقل باشندوں کو حاصل تھا۔

دفعہ 35-اے کے تحت جموں و کشمیر کے پشتنی باشندوں کا انتخاب کرنے اور ان کے لیے خصوصی حقوق اور استحقاق کا تعین کرنے کا اختیار ریاستی مجلس قانونِ ساز کو حاصل تھا۔

دفعہ 370 اور دفعہ 35-اے کی منسوخی کے بعد نہ صرف ریاست کا اپنا آئین، پرچم اور ترانہ ختم ہو گئے ہیں بلکہ اب بھارت کے آئین اور پارلیمان کے منظور شدہ قوانین کا ریاست پر مکمل اور براہِ راست اطلاق ہو رہا ہے۔

نئے قوانین نافذ کرنے پر تحفظات

بھارت کی حکومت اور مقامی انتظامیہ نے گزشتہ ایک برس کے دوران جموں و کشمیر میں متعدد نئے قوانین متعارف کرائے ہیں اور کئی ایک موجودہ قوانین کو تبدیل کیا ہے جس پر حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے یہ کہہ کر تحفظات کا اظہار کیا کہ یہ غیر جمہوری عمل ہے۔

حزبِ اختلاف کے مطابق کشمیر میں عوامی حکومت موجود ہے اور نہ منتخب عوامی نمائندوں پر مشتمل اسمبلی جو ایک جمہوری نظام میں اس طرح کے فیصلے کرنے کی مجاز ہو۔

دوسری جانب مقامی لوگوں میں اضطرابی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ قوانین اور ضابطوں میں رد و بدل بالخصوص نئے اقامتی قانون کا نفاذ مسلم اکثریتی ریاست کی آبادیات کو تبدیل کرنے کے موجودہ بھارتی حکومت کے مبینہ منصوبے کا حصہ ہے۔

سال 2019 کشمیریوں کے لئے کیسا ثابت ہوا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:30 0:00

ان خدشات کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ یونین ٹریٹری آف لداخ کے لیے اس طرح کا کوئی نیا قانون ابھی تک متعارف نہیں کرایا گیا۔ یہاں تک کہ اب لداخ کی بودھ قیادت کو یقین دلایا گیا ہے کہ اس خطے کو چھٹے شیڈول کے تحت محدود اندرونی خود مختاری دی جائے گی۔

جموں و کشمیر کی کئی سیاسی تنظیموں نے اسے جانب داری اور نا انصافی قرار دیا ہے۔ جب کہ بعض ناقدین کے نزدیک یہ ایک 'طے شدہ میچ' ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اب یہ واضح ہو رہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کا اصل ہدف مسلم اکثریتی جموں و کشمیر تھا اور ہے۔

نئے قانونِ اقامت پر اعتراضات

کشمیر کی سیاسی جماعتوں نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، پیپلز کانفرنس، استصوابَ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد کُل جماعتی حریت کانفرنس اور یہاں تک کہ بھارت کی کانگریس پارٹی اور مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی کی مقامی قیادت نے اس پس منظر میں یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ نئے قانونِ اقامت کے تحت غیر مقامی افراد کو بھی شہریت کی سندیں عطا کی جا رہی ہیں۔

سرکاری ذرائع سے حاصل شدہ اعداد و شمار کے مطابق اس قانون کے تحت اب تک 20 لاکھ سے زائد سندیں جاری کی جا چکی ہیں اور فائدہ اٹھانے والوں کی ایک بڑی تعداد ان لوگوں پر مشتمل ہے جو سابقہ ریاست کے مستقل یا پشتنی شہری نہیں ہیں۔

کئی دہائیاں پہلے سابقہ مغربی پاکستان سے ہجرت کر کے جموں کے مختلف سرحدی علاقوں میں سکونت اختیار کرنے والے ہزاروں ہندو پناہ گزینوں کو بھی مستقل رہائشی ہونے کے سرٹیفیکٹ جاری کیے جا رہے ہیں۔

بھارت کی سول سروسز آئی اے ایس میں شامل بعض افسران، ان کے افرادِ خانہ، بالمیکی سماج یعنی خاکروبوں اور گورکھا برادری کے ممبران کو بھی ڈومسائل سرٹیفیکٹس جاری کر دیے گئے ہیں۔

لداخ پر مجوزہ اقدام کے محرکات میں چین کا دباوٴ؟

بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حکومت لداخ کو محدود اندورنی خود مختاری دینے پر اس لیے آمادہ ہو گئی ہے۔ کیوں کہ چین نے اس کی طرف سے پانچ اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی تقسیم کے اقدام کو قبول نہیں کیا اور حال ہی میں بیجنگ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ لداخ کو نئی دہلی کی طرف سے وفاق کے زیرِ انتظام علاقہ بنانے کے اقدام کو تسلیم نہیں کرتا۔

دونوں ممالک کی افواج کے درمیان لداخ اور تبت کی سرحد پر کئی ماہ سے جاری تناوٴ اور محاذ آرائی کو اسی پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

لداخ کے جغرافیائی خد و خال اور آبادی کا تناسب

لداخ کا کل رقبہ 59 ہزار 146 کلو میٹر ہے اور یہ دو اضلاع لیہہ اور کارگل پر مشتمل ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق دونوں اضلاع کی کُل آبادی دو لاکھ 74 ہزار تھی۔ جو اب بڑھ کر تقریباََ چار لاکھ ہو گئی ہے۔

دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد اب کیا ہوگا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:25 0:00

لیہہ ضلع اور کارگل کے نوبرا علاقے میں بدھ مت کے پیرو کاروں کی اکثریت ہے جب کہ کارگل کے باقی علاقے میں مسلمان رہتے ہیں جن کی اکثریت کا تعلق شیعہ فرقے سے ہے۔

مجموعی طور پر لداخ کی کُل آبادی میں 46 اعشاریہ 6 فی صد مسلمان، 39 اعشاریہ 7 فی صد بودھ اور 12 اعشاریہ ایک فی صد ہندو اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔

کارگل کی سیاسی قیادت اور عوام کا دفعہ 370 کی بحالی پر زور

کارگل کی مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں نے، جن میں با اثر مدارس امام خمینی میموریل ٹرسٹ اور اسلامیہ اسکول بھی شامل ہیں، بودھ قیادت کی جانب سے چھٹے شیڈول کے تحت علاقے کو خصوصی اختیارات تفویض کرنے کے مطالبے سے اپنے آپ کو الگ رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ چاہتی ہیں کہ لداخ سمیت پورے جموں و کشمیر کو دوبارہ ریاست کا درجہ دیا جائے اور بھارت کے آئین کی دفعات 370 اور 35-اے کو بحال کیا جائے۔

اس سلسلے میں منگل کو کارگل کے ایک سرکردہ مذہبی رہنما اور جمعیتِ علما اثنا عشری اور اسلامیہ اسکول کے صدر شیخ نذیر مہدی نے علاقے کی دو اور اہم و با اثر شخصیات کپٹین محمد حسین اور سجاد کارگل کی معیت میں لداخ کے لیفٹننٹ گورنر آر کے ماتھر سے ملاقات کی اور کارگل کے عوام کے مطالبات کا اعادہ کیا۔

اس سے پہلے لیہہ کے دورے پر آئے ہوئے بھارت کے وزیرِ مملکت برائے داخلی امور جی کرشن ریڈی نے لیفٹننٹ گورنر اور لداخ کی بودھ قیادت سے الگ الگ ملاقاتیں کر کے ان کے ساتھ لداخ کی مجموعی سیاسی اور سیکیورٹی کی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا تھا اور علاقے کو محدود خود مختاری دینے کے سوال پر ان کی آرا طلب کی تھیں۔

کارگل میں پہلے جشن پھر مایوسی کا اظہار

کارگل کے مکین اور صحافی سجاد کارگلی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 14 ماہ پہلے جب جموں و کشمیر کی آئینی خود مختاری کو ختم کرنے اور لداخ کو ایک الگ یونین ٹریٹری بنانے کا اعلان ہوا، تو لیہہ کی بودھ قیادت اور اس کے حامیوں نے جشن منایا تھا۔ جب کہ کارگل کے عوام نے انہیں جموں و کشمیر کے باقی ماندہ علاقے سے علیحدہ کرنے کی بھرپور مخالفت کی تھی۔ اس کے خلاف ہڑتالیں اور مظاہرے بھی کیے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ لداخ کو یونین ٹریٹری قرار دینا شروع ہی سے راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس اور بی جے پی کا ایجنڈا تھا، کیوں کہ لیہہ میں 2010 کی دہائی کے دوران تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل جو یونین ٹریٹری فرنٹ بنا تھا وہ بعد میں بی جے پی میں مدغم ہوگیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس مطالبے کے کبھی بھی حامی نہیں رہے ہیں۔ جموں و کشمیر کو جن بنیادوں پر تقسیم کیا گیا، ہم ان کے خلاف رہے ہیں۔ ماضی سے لے کر اب تک ہمارا مطالبہ ہے کہ لداخ سمیت جموں و کشمیر کی جغرافیائی اور آئینی حیثیت بحال کی جائے۔

سجاد کارگلی نے مزید کہا کہ وہ تمام حقوق اور مراعات جنہیں لیہہ کی قیادت اور لوگ مانگ رہے ہیں، وہ سب ہمارے پاس پہلے ہی موجود تھیں۔ ریاست کے مرتبے کو کمزور کرنے کے بعد لداخ کو ایک الگ یونین ٹریٹری بنانے پر ان لوگوں نے جشن منایا تھا۔

جہاں تک کارگل کے لوگوں کا تعلق ہے، وہ کہتے ہیں کہ اگر بھارت کی حکومت یقینی طور پر ہمیں با اختیار بنانا چاہتی ہے اور ہمارے مفادات کا تحفظ چاہتی ہے تو جموں و کشمیر کو دوبارہ ریاست کا درجہ دیا جائے اور اس کے ساتھ ہی اس کی آئینی خود مختاری بحال کی جائے۔ ہمارا کبھی بھی چھٹے شیڈول کے تحت خصوصی اختیارات دلانے کا مطالبہ تھا اور نہ ہے۔

بی جے پی کا کہنا ہے کہ وہ لداخ کے عوام کو با اختیار بنانے کے لیے اسے چھٹے شیڈول کے تحت خصوصی قوانین وضع کرنے کی اجازت دینے کے حق میں ہے۔

بی جے پی کے بعض رہنماؤں نے کارگل کی سیاسی قیادت پر دانستہ یا غیر دانستہ طور پر لداخ اور ملک کے حصے بخرے کرنے کی سوچ اور عمل کا حصہ بننے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ طرزِ عمل علاقے کی تعمیر و ترقی کی راہ میں روڑے اٹکانے کا موجب بن سکتا ہے۔

اس معاملے پر سجاد کارگلی نے کہا کہ کارگل کے لوگوں کی اپنی خواہشات اور امنگیں ہیں۔ ظاہر ہے وہ ان کی نمائندگی ہی کریں گے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG