|
ویب ڈیسک —پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ منتقلی کے منتظر افغان پناہ گزینوں کو امریکہ نہیں لے جایا جاتا تو انہیں ملک بدر کر دیا جائے گا۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ اور نائب وزیرِ اعظم اسحاق ڈار نے ترک نشریاتی ادارے ’ٹی آر ٹی‘ کو دیے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان افغان پناہ گزینوں کی منتقلی کے لیے امریکہ سے بات چیت کے لیے تیار ہے۔
تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکہ جن پناہ گزینوں کو قبول کرنے سے انکار کر دے گا انہیں ملک بدری کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کی جانب سے ہفتے کو انٹرویو کے جاری کردہ حصوں کے مطابق اسحاق ڈار نے کہا کہ جن پناہ گزینوں کو کوئی ملک منتقل کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور انہیں لے جانے کا باضابطہ وعدہ کرلیتا ہے تو ایسے افراد کے لیے کوئی ڈیڈ لائن نہیں ہوگی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ایسا نہیں ہوتا ہمارے لیے یہ لوگ پاکستان میں غیر قانونی تارکینِ وطن تصور ہوں گے اور ہمیں مجبوراً انہیں ان کے وطن افغانستان بھیجنا پڑے گا۔
مذکورہ افغان شہری 2021 میں افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہونے کے بعد پاکستان آئے تھے۔ یہ وہ افغان شہری تھے جنہوں نے امریکہ اور نیٹو فورسز سے اپنے تعلق کے باعث کسی ممکنہ انتقامی کارروائی سے بچنے کے لیے پاکستان میں پناہ لی تھی۔
حال ہی میں پاکستان کے دفترِ خارجہ نے بتایا تھا کہ لگ بھگ 80 ہزار افغان باشندوں کو مختلف ممالک اپنے ہاں بسانے کے لیے لے جاچکے ہیں اور تقریباً 40 ہزار اس وقت بھی پاکستان میں ہیں۔ ان میں سے مبینہ طور پر 15 ہزار افغان شہری ایسے بھی ہیں جو امریکہ منتقلی کی منظوری کا انتظار کر رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق پاکستان نے 2023 کے اختتام کے بعد ویزا یا سفری دستاویزات نہ رکھنے والے غیر ملکی شہریوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا جس میں آٹھ لاکھ سے زائد افغان شہریوں کو ڈی پورٹ کیا جا چکا ہے۔
شہباز شریف کی حکومت نے پہلے ہی پی او آر رکھنے والے افغان شہریوں کو 30 جون 2025 تک پاکستان میں رہنے کی مہلت دے دی ہے۔ ان میں زیادہ بڑی تعداد ایسی ہے جو افغانستان کی خانہ جنگی اور طالبان کی 1996 سے 2001 تک کی پہلی حکومت کے خوف کے باعث ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔
پاکستان میں اقوامِ متحدہ میں رجسٹرڈ اور پروف آف رجسٹریشن(پی او آر) کارڈ رکھنے والے افغان شہریوں کی تعداد 10 لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے۔