رسائی کے لنکس

بھارتی فوج کا تین کشمیری نوجوانوں کو فرضی جھڑپ میں ہلاک کرنے کا اعتراف


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی فوج نے اعتراف کیا ہے کہ جولائی میں کشمیر کے سرحدی ضلع راجوری کے جو تین نوجوان اچانک لاپتا ہوئے تھے انہیں بھارتی سپاہیوں نے ضلع شوپیاں میں ایک آپریشن کے دوران ہلاک کر دیا تھا۔

یہ تینوں نوجوان مزدوری کے لیے 17 جولائی کو راجوری سے شوپیاں پہنچے تھے، جہاں انہوں نے ایک کمرہ کرائے پر لیا تھا اور اسی شام اپنے گھر والوں کو فون پر مطلع کیا تھا کہ انہیں ایک مقامی باغ میں کام مل گیا ہے جسے وہ اگلے روز شروع کر رہے ہیں۔

اس کے بعد ان کا اپنے گھر والوں سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔ ان کے اہل خانہ نے پولیس اور صحافیوں کو بتایا تھا کہ وہ یہ سمجھے تھے کہ کشمیر میں چوں کہ فون اور دوسری مواصلاتی سروسز اکثر بند ہو جاتی ہیں، اس لیے ان کے عزیز ان سے رابطہ نہیں کر پا رہے۔

بھارت کی فوج نے 18 جولائی کو شوپیاں کے امشی پورہ نامی علاقے میں ایک آپریشن کے دوران تین مبینہ دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

اس حوالے سے پولیس حکام نے بتایا تھا کہ ہلاک کیے گئے 'دہشت گردوں' کی شناخت نہیں ہو سکی ہے اور ان کی لاشیں وصول کرنے کے لیے بھی کوئی سامنے نہیں آیا۔ تو انہیں بارہ مولا کے اس قبرستان میں دفن کر دیا گیا جہاں عمومی طور پر کشمیر میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے غیر ملکی عسکریت پسندوں کو دفن کیا جاتا ہے۔

پولیس نے یہ بھی کہا تھا کہ تدفین سے پہلے ہلاک شدگان کے ڈی این اے نمونے حاصل کیے گئے تھے۔

جب راجوری کے لاپتا نوجوانوں محمد امتیاز، ابرار احمد خان اور ابرار یوسف کے رشتے داروں کے لیے انتظار طویل ہونے لگا اور ان تک شوپیاں میں غیر شناخت شدہ مبینہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیے جانے کی خبر پہنچی تو ان کی بے چینی مزید بڑھ گئی۔

جموں کشمیر میں آئینی تبدیلی کا ایک سال مکمل
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:44 0:00

انہوں نے مقامی پولیس تھانے جا کر ان نوجوانوں کی گمشدگی کے بارے میں رپورٹ درج کرائی اور اس کے ساتھ ہی یہ مطالبہ کیا کہ قبر کشائی کر کے مبینہ جھڑپ میں ہلاک کیے گئے افراد کی شناخت کئی جائے۔

حکام نے ان کا یہ مطالبہ تو نہیں مانا البتہ پولیس اور فوجی حکام نے معاملے کی تحقیقات کرنے کا وعدہ کیا۔

اس سلسلے میں پولیس نے اگست کے وسط میں لاپتا نوجوانوں کے قریبی رشتے داروں کے ڈی این اے نمونے حاصل کیے تھے۔ تاہم اس کے بعد مزید کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی۔

بعد ازں لاپتا نوجوانوں کے والدین نے جموں و کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا کو خط ارسال کیا جس میں یہ شکایت کی گئی کہ فوج اور پولیس تحقیقات کو بلاوجہ طول دے رہے ہیں اور اس سلسلے میں جان بوجھ کر غیر سنجیدگی اور کوتاہی کا مظاہرہ بھی کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے خط میں فوج اور پولیس کے رویے کو انصاف کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا تھا۔

لاپتا نوجوانوں کے والدین نے لیفٹننٹ گورنر سے معاملے میں ذاتی مداخلت کی اپیل کی تھی۔

لیفٹننٹ گورنر سنہا نے گزشتہ دنوں سرینگر میں ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کے استفسار پر یقین دلایا تھا کہ متاثرہ خاندانوں کو ضرور انصاف ملے۔ جب کہ جمعرات کو کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے بھی کہا تھا کہ ڈی این اے رپورٹس کے ملاپ کے نتائج کو بہت جلد منظر عام پر لایا جائے گا۔

جمعے کو بھارت کی فوج کے ایک بیان میں کہا گیا کہ جھڑپ سے متعلق شروع کی گئی تحقیقات مکمل ہو گئی ہیں۔

جموں و کشمیر میں بے روزگاری کی نئی لہر
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:00 0:00

بیان کے مطابق تحقیقات کے دوران معلوم ہوا ہے کہ آپریشن میں قواعد کی خلاف ورزی کی گئی اور آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ 1990 سے تجاوز کیا گیا۔

اس خصوصی قانون کے تحت فوج کو جموں و کشمیر میں شورش اور آزادی کے لیے چلائی جا رہی مسلح جدوجہد کو دبانے کے لیے بے پناہ اختیارات حاصل ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ فوج کے وضع کردہ طریقہ کار کی بھی خلاف ورزی کی گئی جس کی پاداش میں اس آپریشن میں شامل افسران اور سپاہیوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت تادیبی کارروائی کی جائے گی۔

بھارت کی فوج کا کہنا ہے کہ ابھی ڈی این اے نمونوں کی رپورٹ آنے کا انتظار ہے جب کہ پولیس یہ پتا لگا رہی ہے کہ ہلاک کیے گئے افراد دہشت گردی یا متعلقہ سرگرمیوں میں ملوث تھے یا نہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ بھارت کی فوج ضابطوں کی پابند ہے اور شوپیان امشی پورہ واقعے کے بارے میں مزید تفصیلات مناسب وقت پر جاری کی جائیں گی۔

گزشتہ ماہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' اور 'ہیومن رائٹس واچ' نے بھارت کی فوج اور کشمیر کی پولیس کی تحقیقات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا تھا کہ یہ کام آزاد سویلین اتھارٹیز کو سونپا جانا چاہیے۔

ان کا استدلال تھا کہ سویلین تحقیقات اور عدالتی کارروائی کسی حد تک شفافیت اور غیر جانب داری کا مظہر ہوتی ہیں۔ فوج کے نظامِ انصاف میں غیر جانب داری نظر نہیں آتی۔

کئی مقامی سیاسی جماعتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی مبینہ فرضی جھڑپ کی غیر جانب دارانہ تحقیقات اور واقعے میں ملوث فوجیوں کو سزا دینے کا مطالبہ کر چکی ہیں۔

قصور وار اہلکاروں کی سزائے موت کا مطالبہ

ہلاک کیے گئے نوجوانوں کے والدین اور دوسرے رشتے داروں نے فرضی جھڑپ میں ملوث فوجیوں کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

محمد امتیاز کے والد صابر حسین نے کہا ہے کہ اب جب کہ فوج نے یہ اعتراف کر لیا ہے کہ ان کے بے گناہ بیٹے اور اس کے دوستوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا۔ وہ اس میں واقعے میں ملوث فوجیوں کو سزائے موت دینے کا اعلان بھی کرے۔

ان کے بقول ''ہم جانتے تھے ہمارے بچوں اور ہمارے ساتھ انتہائی ظلم کیا گیا ہے لیکن ہمیں یہ بھروسا تھا کہ بھارت کی فوج اس کا اعتراف بھی کرے گی۔"

امتیاز کے بھائی محمد سلیم نے کہا کہ فوج کا بیان اس بات کی تصدیق ہے کہ یہ نوجوان روزگار کی تلاش میں شوپیاں گئے تھے۔ اب ڈی این اے کی رپورٹس کو جلد جاری کیا جائے تاکہ ہم ان کی باقیات کو حاصل کرنے کے لیے قانونی کارروائی شروع کر سکیں۔

اس واقعے پر کشمیر کے سابق پولیس سربراہ شیش پال وید نے ایک ٹوئٹ میں ملوث فوجی اہل کاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ معصوم نوجوانوں کو ہلاک کرنا اور پھر انہیں دہشت گرد دکھانا ایک گھناؤنا جرم ہے۔ ملوث اہل کاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG