رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر: جھڑپ میں تین پولیس اہلکار، دو مبینہ عسکریت پسند ہلاک


آئی جی پولیس کے مطابق کالعدم لشکرِ طیبہ کے عسکریت پسندوں کے ایک گروہ نے سڑک پر پہرہ دینے والے پولیس اہلکاروں پر خود کار ہتھیاروں سے فائرنگ کی جس سے تین اہلکار ہلاک ہوئے۔ (فائل فوٹو)
آئی جی پولیس کے مطابق کالعدم لشکرِ طیبہ کے عسکریت پسندوں کے ایک گروہ نے سڑک پر پہرہ دینے والے پولیس اہلکاروں پر خود کار ہتھیاروں سے فائرنگ کی جس سے تین اہلکار ہلاک ہوئے۔ (فائل فوٹو)

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں نے کارروائیاں تیز کرتے ہوئے گزشتہ چار روز کے دوران کم سے کم پانچ پولیس اہلکاروں کو ہلاک کیا ہے۔ جب کہ بھارت کی مرکزی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سرگرم اراکین کو ہدف بنانے کے واقعات میں بھی حالیہ ایام میں اضافہ ہوا ہے۔

پولیس پر تازہ حملہ شمال مغربی ضلع بارہ مولہ کے کریری علاقے میں پیر کے روز کیا گیا۔

انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس وجے کمار نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ کالعدم لشکرِ طیبہ سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کا ایک گروہ سیب کے ایک باغ سے حملہ آور ہوا اور اس نے سڑک پر پہرہ دینے والے پولیس اہلکاروں پر خود کار ہتھیاروں سے فائرنگ کی۔ حملے میں ایک پولیس افسر مظفر احمد موقعے ہی پر ہلاک ہوا جب کہ وفاقی پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے دو اہلکار لوکس شرما اور خورشید خان شدید زخمی ہوئے جو بعد میں اسپتال میں دم توڑ گئے۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس اچانک حملے کے فوراً بعد بھارت کی فوج، سی آر پی ایف اور مقامی پولیس کے اسپیشل آپریشنز گروپ نے کریری کے وسیع علاقے کو گھیرے میں لے کر حملہ آوروں کی تلاش شروع کر دی۔

حکام کے مطابق آپریشن میں عسکریت پسندوں سے جھڑپ شروع ہوئی جو آخری اطلاعات آنے تک جاری تھی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اس آپریشن میں تاحال لشکرِ طیبہ کے ایک اعلیٰ کمانڈر سمیت دو مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے جب کہ ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں سے چھینا گیا اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے۔

قبل ازیں جمعے کو سرینگر کے علاقے نوگام میں عسکریت پسندوں کے حملے میں دو پولیس اہلکار ہلاک اور ایک زخمی ہوا تھا۔

پیر ہی کو سیکیورٹی فورسز نے جنوبی ضلعے پلوامہ میں عسکریت پسندوں کی ایک پُل کو بارود سے اڑانے کی کوشش ناکام بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔

جموں و کشمیر میں مشتبہ عسکریت پسندوں نے حالیہ ایام کے دوران بی جے پی کے سرگرم کارکنوں پر حملے بھی تیز کر دیے ہیں۔ ان حملوں میں کم سے کم پانچ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں ایک مقامی کمیٹی کا سربراہ بھی شامل تھا۔

جموں کشمیر میں آئینی تبدیلی کا ایک سال مکمل
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:44 0:00

ان حملوں کے بعد پولیس نے 150 سے زائد بھارت نواز سیاسی کارکنوں کو جن میں اکثر کا تعلق بی جے پی سے ہے، سیکیورٹی فراہم کر دی ہے جب کہ پنچایتی اور بلدیاتی کمیٹیوں کے درجنوں عہدیداروں اور ممبران کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے کہا ہے کہ سیکیورٹی دستوں کو اگرچہ عسکریت پسندوں پر برتری حاصل ہے اور انہوں نے اس سال 160 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا ہے۔ تاہم ان کے بقول کبھی کبھی حفاظتی دستوں کو بھی ان کے ہاتھوں نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

حکام کے مطابق عسکریت پسندوں کے حملوں اور ان کے ساتھ مقابلوں میں اس سال اب تک 39 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

پولیس سربراہ سے جب عسکریت پسندوں کے حملوں میں تیزی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھیرایا۔

دلباغ سنگھ نے کہا کہ اس طرح کے حملے تب کیے جاتے ہیں جب کشمیر کے حالات میں بہتری آتی ہے۔ ہمارا پڑوسی وادی میں امن و امان برداشت نہیں کر سکتا اور اسے خراب کرنے کے لیے اس طرح کے حملے اور کارروائیاں کراتا ہے۔

پاکستان بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کی معاونت کے الزامات کی ہمیشہ تردید کرتا رہا ہے۔

اسلام آباد کا مؤقف ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں مقامی افراد کی جدوجہدِ آزادی کو ریاستی طاقت کے ذریعے دبایا جا رہا ہے۔

دوسری جانب جموں کی پولیس نے اہانتِ مذہب کے الزام میں ایک ہندو مذہبی کارکن سمیت تین افراد کو گرفتار کیا ہے۔

جموں کے آئی جی پولیس مکیش سنگھ کا کہنا ہے کہ پولیس نے فوری کارروائی کرکے قانون کی متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا اور پھر ہندو سادھو ستپال شرما، اس کے ساتھی دیپک کمار اور ویڈیو ریکارڈ کرکے مقامی ٹیلی ویژن چینل پر دکھانے کی الزام میں ایک شخص روہت کمار کو گرفتار کیا گیا ہے۔

مکیش سنگھ نے خبردار کیا کہ ایسے تمام لوگوں کے خلاف بھی سخت قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو زک پہنچانے کی غرض سے اس ویڈیو کی تشہیر کر رہے ہیں۔

اس ویڈیو کے ساتھ ساتھ جموں میں مبینہ طور پر مقامی ہندوؤں کے ایک گروہ کی دو مسلمانوں پر تشدد کی ویڈیو اتوار کو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس کے بعد جموں کے کئی علاقوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوئی۔

پیر کو جموں کے کئی مسلم اکثریتی علاقوں میں ان واقعات کے خلاف ہڑتال اور مظاہرے کیے گئے۔

ہڑتال کی اپیل بعض مقامی مسلم تنظیموں نے کی تھی جس کے پیشِ نظر حکام نے حساس سمجھے جانے والے کشتواڑ ضلعے میں کرفیو نافذ کر دیا تھا۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG