میں اپنے گھر کے مہمان خانے میں ترال سے آئے ایک ولی صفت بزرگ مہمان سے محوِ گفتگو تھا۔ ترال بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے گرمائی صدر مقام سرینگر سے 45 کلو میٹر جنوب میں سر سبز و شاداب پہاڑوں کے دامن میں واقع ایک خوب صورت اور دلکش علاقہ ہے۔ لیکن حالیہ برسوں بالخصوص جولائی 2016 میں معروف عسکری کمانڈر برہان مظفر وانی کی ہلاکت کے بعد سے تشدد اور افراتفری کی لپیٹ میں ہے۔
ہماری گفتگو کا موضوع کشمیر میں کشت و خون اور تباہی و بربادی کا نہ تھمنے والا سلسلہ اور اس کے نتیجے میں عام لوگوں کی زندگیوں پر پڑنے والے منفی اثرات، ہنستے بستے گھروں کا اجڑنا، معیشتوں کی تباہی اور نوجوانوں اور خواتین پر بڑھتا ہوا نفسیاتی دباوٴ تھا۔
میری اہلیہ نصرت امین اور سب سے بڑی بیٹی امِ کلثوم گھر کے باورچی خانے میں مصروف تھیں۔ ہم نمازِ عشاء سے فارغ ہوئے تو میری سب سے چھوٹی بیٹی فاطمہ الزہرا نے مہمان خانے میں آکر ہمیں یہ اطلاع دی کہ دستر خوان بچھ چکا ہے اور ہم عشائیے کے لیے باورچی خانے سے ملحق کمرے میں آسکتے ہیں۔
میری منجھلی بیٹی زینب طشت اور ناری لے کر آگئیں۔ طشت تانبے کا بنا آرائشی واش بیسن نما برتن ہے اور ناری تانبے ہی کی بنی صراحی جنہیں میزبان یا خدمت گار مہمان کے آگے پیش کرکے اُس کے ہاتھ دھلاتا ہے۔ یہ کشمیر کی مہمان نوازی کا ایک روایتی انداز ہے۔
دستر خوان پر روایتی کشمیری پکوان چنے تھے اور ہم کھانا شروع کرنے ہی والے تھے کہ اچانک فائرنگ کی آواز سنائی دی۔ خود کار ہتھیاروں سے کی جانے والی فائرنگ اس قدر شدید تھی کہ پورا محلہ اس کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھا۔ لگ رہا تھا کہ ہمارے گھر کے باہر گلی میں یا بغل میں واقع کسی مکان کے اندر لڑائی ہو رہی ہے۔
پورے گھر میں خوف و دہشت اور افراتفری کا ماحول پیدا ہوگیا۔ ہم سب گھر کے ایک ایسے چھوٹے سے کمرے میں دبک کر بیٹھ گئے جسے ہم نے نسبتاً محفوظ سمجھ لیا تھا۔ لگ رہا تھا کہ پڑوس میں واقع ہر گھر میں کچھ اسی طرح کی صورتِ حال ہوئی ہے۔ میں نے کھڑکی سے جھانکا تو دیکھا کہ سب نے بجلی کی بتیاں بجھا لی ہیں۔ ہم پہلے ہی ایسا کر چکے تھے۔
فائرنگ مزید تیز ہوئی تو زینب رونے لگی۔ نصرت اور میں نے اُسے دلاسا دینے کے لیے کہا کہ ہم نے اس سے بدتر حالات کا نہ صرف مشاہدہ کیا ہے بلکہ 1990 کی دہائی کے دوران جب وادیٴ کشمیر میں مزاحمت کی مسلح تحریک عروج پر تھی اور اسے دبانے کے لیے سیکیورٹی فورسز نے ایک سخت گیر مہم شروع کر رکھی تھی، تو کئی مرتبہ کراس فائرنگ اور بم دھماکوں کے عین درمیان پھنس جانے کے باوجود ہم صحیح سلامت بچ کر نکل گئے تھے۔
امِ کلثوم اور فاطمہ بھی ڈر کر سہم گئی تھیں۔ خوف اُن کے چہروں سے عیاں تھا۔ میں نے تینوں بہنوں کو اس کیفیت سے باہر لانے کے لیے اپنے تجربات کی داستان چھیڑ دی اور اُن سے بتایا کہ کیسے میں خود پر ہونے والے نصف درجن قاتلانہ حملوں کے باوجود اُن کے سامنے ہشاش بشاش موجود ہوں۔ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر کسی کے پیر میں کانٹا بھی نہیں چبھ سکتا۔
اس پر فاطمہ کہہ اُٹھیں کہ "بابا! اگر انہوں نے ہمارے گھر کو بارود سے اڑا دیا یا نذرِ آتش کردیا تو ہم کیا کریں گے؟" اس سوال کا میرے پاس بھی کوئی جواب نہیں تھا۔
لگ رہا تھا کہ فائرنگ کسی قریبی گھر میں محصور عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان ہو رہی ہے۔ فاطمہ کا اشارہ اس طرح کے واقعات میں ہونے والی نجی گھروں کی تباہی کی طرف تھا۔
چند ہفتے پہلے سری نگر کے کنہ مزار نوا کدل نامی علاقے میں ایک گھر میں موجود عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان کئی گھنٹے تک جاری رہنے والی لڑائی میں ڈیڑھ درجن کے قریب مکان اور ان میں موجود سامان مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوگئے تھے۔
اگرچہ حکام نے اسے ناگزیر کولیٹرل ڈیمیج یا فوجی کارروائی کے دوران عام لوگوں کو پہنچنے والا نقصان قرار دیا تھا، لیکن مقامی لوگوں نے الزام لگایا تھا کہ فورسز نے اُن کے گھروں کو جان بوجھ کر تباہ کیا۔
میں نے فاطمہ سے کہا ہمارے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ نصرت نے میری طرف کچھ اس انداز سے دیکھا جیسے پوچھ رہی ہوں کہ آپ وثوق سے ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں؟ میں دل ہی دل میں یہ دعا کرنے لگا کہ اللہ ہمیں کبھی اس طرح کی آزمائش میں نہ ڈالے۔
کچھ دیر بعد فائرنگ رک گئی تو میرے موبائل فون پر کالیں آنا شروع ہوگئیں۔ قرب و جوار میں رہنے والے چند حضرات یہ جاننا چاہتے تھے کہ عسکریت پسند کس کے مکان میں پھنس گئے ہیں۔ غالباً وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ ایک صحافی ہونے کے ناتے مجھے اس کا بخوبی علم ہوگا۔ کچھ دوستوں اور رشتے داروں نے بھی ہماری خیریت جاننے کے لیے فون کیے۔
اس دوران بعض واٹس اپ گروپس اور سوشل میڈیا سائٹس پر یہ خبر آگئی کہ ہمارے علاقے میں جاری جھڑپ میں ایک عسکریت پسند اور ایک سیکیورٹی اہلکار کی موت ہوئی ہے۔ جموں و کشمیر پولیس نے ٹوئٹ کر کے عسکریت پسند کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی۔
پھر یہ خبر آئی کہ مارے جانے والے عسکریت پسند کے دو یا تین ساتھیوں نے قریب واقع ایک نجی اسکول کی کثیر المنزلہ عمارت میں پناہ لے لی ہے۔
فائرنگ چوں کہ رک چکی تھی، میں اپنی اہلیہ، بچیوں اور مہمان کو یہ سمجھانے لگا کہ پو پھٹتے ہی طرفین کے درمیان لڑائی دوبارہ شروع ہوگی جو نسبتاً زیادہ شدید ہوگی۔ اس لیے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کرلیں۔
جانی نقصان سے بچنے کے لیے سیکیورٹی فورسز عسکریت پسندوں کے خلاف اس طرح کے آپریشنز کو عموماً رات کو معطل رکھتے ہیں۔ مہمان گویا ہوئے کہ "جناب! ہمارے ہاں یہ تقریباً روز کا معاملہ ہے۔"
نصف شب کو سوشل میڈیا سے پتہ چلا کہ 'انکاؤنٹر' ختم ہو چکا ہے۔ جموں و کشمیر پولیس نے اس میں وفاقی پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے ایک ہیڈ کانسٹیبل کلدیپ کمار کی ہلاکت کی تصدیق کی اور کہا کہ یہ ایک آسان اور ہموار آپریشن تھا جس کے دوران کوئی کولیٹرل ڈیمیج (یعنی شہریوں کا نقصان) نہیں ہوا۔
میں نے زینب کی طرف دیکھا۔ وہ اب بھی ڈری ہوئی تھیں۔ امِ کلثوم اور فاطمہ کمرے کے ایک کونے میں خاموش بیٹھی تھیں۔ اُن کے چہروں پر اب بھی خوف نمایاں تھا۔ نصرت اپنی بہن کے ساتھ جو سری نگر ہی کے ایک علاقے میں رہتی ہیں، فون پر بات کر رہی تھیں اور بتا رہی تھیں کہ "بس اللہ نے بچا لیا۔"
اگلی صبح علاقے میں یہ بات پھیل گئی کہ یہ ایک جعلی جھڑپ تھی۔ لوگ استفسار کرنے لگے کہ مارے گئے عسکریت پسند کے ساتھیوں کا کیا ہوا؟ ایک شخص نے بتایا کہ سیکیورٹی اہلکار ایک ملحقہ مکان کے صحن کی بیرونی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے، مکان کے بعض حصوں کی تلاشی لی اور جب وہ باہر چلے گئے تو فائرنگ شروع ہوگئی۔ اُس کے بعد کیا ہوا اس کا کوئی عینی شاہد نہیں۔
اگر یہ ایک جعلی جھڑپ تھی تو سی آر پی ایف اہلکار کیسے ہلاک ہوا؟ اس سوال کا کسی کے پاس جواب نہیں ہے۔
جموں و کشمیر پولیس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جھڑپ کے دوران ہلاک ہونے والے عسکریت پسند زاہد احمد داس کا تعلق اسلامک اسٹیٹ جموں و کشمیر (آئی ایس جے کے) سے تھا جو 26 جون کو ضلع اننت ناگ کے بیج بہاڑہ قصبے میں سیکیورٹی فورسز پر کیے جانے والے حملے میں ملوث تھا۔ اس حملے میں وفاقی پولیس فورس کا ایک اہلکار اور ایک چھ سالہ بچہ ہلاک ہوئے تھے۔
پولیس بیان میں کہا گیا کہ جموں و کشمیر پولیس اور سی آر پی ایف نے سری نگر کے ملہ باغ علاقے میں مشترکہ آپریش اس معتبر اطلاع کے ملنے پر شروع کیا تھا کہ وہاں دہشت گرد چھپے بیٹھے ہیں۔ البتہ بیان مارے گئے عسکریت پسند کے ساتھیوں کی قسمت کے بارے میں خاموش ہے۔
پولیس نے سری نگر میں ہونے والے مبینہ مقابلے میں اُس کی ہلاکت کو سیکیورٹی فورسز کی ایک بڑی کامیابی بھی قرار دیا۔
اگلی صبح ہمارے علاقے میں زندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھی۔ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں گزشتہ 30 سال کے دوران ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں اور املاک کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ لیکن مقامی آبادی کے لیے ہر نئی صبح اس امید کے ساتھ طلوع ہوتی ہے کہ گزرا ہوا کل خون ریزی اور تباہی و برباری کا آخری دن تھا۔