23 مارچ کو جب حکومت کی جانب سے کرونا وائرس کے سبب لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا تو لوگوں نے اسے ایک سادہ سا معاملہ سمجھا۔ لیکن باہر نکلنے پر انہیں معلوم ہوا کہ بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ شہر میں جگہ جگہ سخت ناکے اور پولیس کے پہرے ایسے ہی نہیں لگائے گئے ہیں۔ دکھائی نہ دینے والا کوئی ایسا طاقت ور دشمن موجود ہے جو چھپ کر وار کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
لیکن دوسری جانب ہم بھی وہ قوم ہیں جو چانس لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ لیکن جب دو دن کے بعد رینجرز کے ہاتھوں میں ڈنڈے اور کچھ نوجوانوں کی ٹھکائی ہوتی نظر آئی تو اندازہ ہوا کہ معاملہ زیادہ ہی گڑبڑ ہے۔ اب احتیاط کرنا ہی ہو گی۔
احتیاط کا آغاز ہوا۔ لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام بے چینی سے دو ہفتوں کا لاک ڈاؤن ختم ہونے کا انتظار یوں کرنے لگے جیسے کرونا دو ہفتوں کے بعد فلائٹ پکڑ کر اور پاکستانیوں کو "گڈ بائے، سی یو اگین" کہہ کر رخصت ہو جائے گا۔ مگر ہوا یہ کہ لاک ڈاؤن کا دورانیہ بڑھتا ہی گیا اور کرونا جم کر کھڑا ہو گیا۔
لیکن اب لگتا یوں ہے کہ کرونا کے سرکار کے ساتھ معاملات طے پا گئے ہیں۔ تاجروں کے ساتھ مذاکرات میں حکومت نے کرونا کو بھی شامل کر کے یہ طے کیا ہے کہ اب پیر تا جمعرات چار دن تاجروں اور عوام کے ہوں گے اور ہفتے کے بقیہ تین دن یعنی جمعہ تا اتوار کرونا کو دے دیے جائیں گے۔ جس دوران دکانیں اور کاروبار بند اور لوگ گھروں کے اندر رہیں گے اور سنسان سڑکوں اور شاہراہوں پر کرونا راج کرے گا۔
تمام معاملات طے ہوتے ہی لوگ ہجوم در ہجوم سڑکوں پر نکل آئے۔ برینڈز کی دکانوں پر عورتوں کا رش بتا رہا ہے جیسے یہ عید کی خریداری کا آخری موقع ہے۔ پھر کچھ ملنے کا نہیں۔
حیدری مارکیٹ، طارق روڈ، پاپوش نگر، لیاقت آباد، زینب مارکیٹ کے باہر تل دھرنے کو جگہ نہیں ہے۔ گھنٹوں ٹریفک جام نے ان لوگوں کی چیخیں نکال دیں جو ان دنوں کسی اجنبی کی چھینک اور کھانسی سے ڈر جاتے ہیں۔ باہر سے گھر آئیں تو سب سے پہلے واش روم میں جاتے ہیں اور جب تک نہا دھو کر دوسرے کپڑے نہ پہن لیں، انہیں اطمینان ہی نہیں ہوتا۔
جن لوگوں نے کرونا کے ڈر سے اپنی ساری شاپنگ آن لائن کر لی تھی، درزی کو سلنے کے لیے کپڑے بھی ماسک اور دستانے پہن کر دیے تھے اور دوپٹے پیکو نہ ہونے پر صبر شکر کر لیا تھا، اب بازاروں میں جنگی منظر دیکھ کر سوچتے ہیں کہ شاید ان کا خوف نفسیاتی دباؤ کے باعث تھا۔
ہفتے کو مجھے اپنی بہن کے ساتھ جناح اسپتال میں زیرِ علاج اپنی نانی کی عیادت کے لیے جانا پڑا۔ رکشے والے نے کہا، "باجی آج سڑکیں خالی ملیں گی کیوں کہ سخت لاک ڈاؤن کا دوسرا روز ہے۔ اگر آپ پیر کو جائیں گی تو گھنٹوں تک ٹریفک جام میں پھنس سکتی ہیں۔"
جب ہم مرکزی شاہراہ پر پہنچے تو وہاں پولیس والے ایک درخت کے سائے میں کرسیاں بچھائے خوش گپیاں کرتے نظر آئے۔ میں نے حیرت سے کہا کہ لاک ڈاؤن اگر سخت ہے تو یہ کیوں اتنے آرام سے بیٹھے ہیں؟
بہن نے کہا، "باجی آج کرونا کا دن ہے اور آج نظر نہ آنے والے ناکے بھی کرونا کے ہیں۔ جنہیں ہم توڑ رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ کرونا کی نظر نہ آنے والی موبائل ہمارا پیچھا کر رہی ہے۔ آپ نے کرونا کے ایس او پیز کی خلاف ورزی کی ہے، جمعے سے اتوار کے دن کرونا کے ہیں۔ ان دنوں میں جو بھی باہر نکلے گا، کرونا اسے چھوڑے گا نہیں۔ اور باقی دنوں میں وہ آپ کی جانب آنکھ بھی نہیں اٹھائے گا۔ باجی میری مانیں تو چلیں واپس اپنے گھر۔"
خیر وہ تو میں مذاق کر رہی تھی۔ مگر بازاروں کی گہما گہمی اور رش دیکھ کر لگتا ہے کہ لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہفتے کے پہلے چار دنوں میں کرونا انہیں کچھ نہیں کہے گا۔
آپ یہ دیکھیں کہ کرونا متاثرین کے متعلق اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟ رمضان کے پہلے ہفتے میں ان کی تعداد کیا تھی اور اب کیا ہے۔ ہمیں ڈاکٹروں کی پریس کانفرنس اور ان کی اپیلیں بھی یاد نہیں۔ کرونا سے مرنے والوں کی خاموشی سے تدفین بھی ہم بھول چکے ہیں۔ ہم انہیں بھی بھول گئے ہیں جو قرنطینہ کے مراکز اور گھروں میں آئسولیشن میں امید اور خوف میں اپنا ایک ایک پل بتا رہے ہیں۔
یاد ہے تو صرف یہ کہ اس عید پر برینڈڈ لان کا والیم ٹو پہننا ہے، کیوں کہ والیم ون لاک ڈاؤن کی نذر ہو چکا۔ یہ جو ہفتے میں چار دن شاپنگ کی آزادی ملی ہے، اسے ضائع نہیں کیا جا سکتا۔ جی بھر کر شاپنگ کر لینی چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ سرکار کا مزاج بدل جائے اور سارے دن کرونا کے نام کر کے پھر سے لاک ڈاؤن کر دے۔
اس عالمی وبا نے بلاشبہ کاروبار ٹھپ کر دیے تھے۔ جن تاجروں نے قرضے پر مال اٹھایا تھا، وہ دل پکڑے بیٹھے تھے۔ بالآخر ان کی تنظیمیں وعدوں اور قسموں کے ساتھ حکومت سے مارکیٹیں اور دکانیں کھلوانے میں کامیاب ہو گئیں۔ مگر پھر کہاں کے سماجی فاصلے، کہاں کے ماسک اور دوسری حفاظتی پابندیاں؟ ہم نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہم اپنی خو نہ چھوڑیں گے اور عید کی تیاریاں اسی طرح کریں گے جیسے ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔
بھیڑ بھاڑ اور مارکیٹوں میں لوگوں کا اژدھام دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے کرونا نے یہ وعدہ کر لیا ہے کہ وہ پیر سے جمعرات تک کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا۔ اور ہفتے کے باقی تین دنوں کے لیے بھی کوئی راستہ نکل ہی آئے گا۔