بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں تعینات سیکیورٹی فورسز میں خود کشی اور اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
محکمہ داخلہ کے ذرائع کے مطابق رواں سال اب تک 21 سیکیورٹی اہلکار خود کشی کر چکے ہیں۔ جب کہ 6 سیکیورٹی اہلکار اپنے ہی ساتھیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔
ایک تازہ واقعے میں بھارت کی فوج کے ایک سپاہی جگجیت سنگھ نے وسطی ضلع گاندربل میں واقع فوجی کیمپ میں خود کشی کی ہے۔
اس واقعے سے دو دن قبل ایک 22 سالہ فوجی رکشت کمار نے سرحدی ضلع بارہ مولہ میں سروس رائفل سے خود کو گولی مارکر خود کشی کی تھی۔
گزشتہ برس 19 اہلکاروں نے خود کشی کی تھی۔ جب کہ 3 سیکیورٹی اہلکار اپنے ہی ساتھیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔
ذہنی دباؤ میں انتہائی قدم اٹھانے کی وجوہات
ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ خود کشیوں اور اپنے ہی ساتھیوں کو مارنے کے اقدامات ذہنی دباؤ میں آ کر کیے جاتے ہیں۔ کیوں کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں سے جاری شورش کو دبانے کے لیے تعینات یہ اہلکار ناموافق صورت حال میں فرائض انجام دے رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی اہلکاروں میں مایوسی کی سطح اس وقت بڑھ جاتی ہے جب انہیں گھر جانے کے لیے چھٹی دینے سے انکار کیا جاتا ہے۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر عبد الوحید خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کشمیر میں کئی برسوں سے کشیدگی جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں عام لوگوں کے مقابلے میں سیکیورٹی دستوں میں ٹراما یا صدمے کی کیفیت زیادہ پائی جاتی ہے۔
ڈاکٹر عبدالوحید کا مزید کہنا تھا کہ سیکیورٹی اہلکار جب کسی آپریشن میں حصہ لینے یا کہیں پر ڈیوٹی انجام دینے سے پہلے 'بلٹ پروف جیکٹ' پہن لیتے ہیں۔ تو اسی وقت ان میں یہ احساس شدت کے ساتھ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ ایک خطرناک صورت حال سے گزرنے والے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب یہ صورتِ حال ایک سپاہی کے ذہن پر دباؤ کو ایک ناقابلِ برداشت حد تک لے جاتی ہے تو وہ اپنا غصہ اپنے آپ پر یا پھر اپنے کسی ساتھی پر اتار لیتا ہے۔
ان کے بقول ایسا کرنا اس کے لیے آسان ہے کیوں کہ وہ پہلے ہی مسلح ہوتا ہے۔
اہلکاروں میں ذہنی دباؤ کم کرنے کے اقدامات
سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ اہلکاروں میں ذہنی تناؤ کو کم کرنے اور انہیں تفریح کے مواقع فراہم کرنے کے لیے حالیہ برسوں میں کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ جن کے نتیجے میں ان میں منفی سوچ کے رجحان میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
وفاقی پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے ڈائریکٹر جنرل برائے شمالی بھارت ذوالفقار حسن کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے نوجوانوں میں پیدا ہونے والے ذہنی دباؤ کو کم کرنے، انہیں مناسب آرام اور تفریح کے بہتر مواقع فراہم کرنے کے لیے کئی پروگرام شروع کیے ہیں۔
ذوالفقار حسن کا کہنا تھا کہ اہلکاروں کو اب چھٹی پر گھر جانے کی بھی اجازت دی جاتی ہے اور انہیں امید ہے کہ ان کے نوجوانوں میں خود کشی کی سوچ کے حوالے سے صورتِ حال مستقبل میں اور بہتر ہو جائے گی۔
ذوالفقار حسن نے دعویٰ کیا کہ جموں و کشمیر میں تعینات حفاظتی دستوں میں اپنے ہی ساتھیوں کو مارنے اور خود کشیوں کی شرح، بھارت کی مختلف ریاستوں کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔
بھارت کے اخبار ‘ٹائمز آف انڈیا’ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک دہائی کے دوران بھارت کی بحری، فضائیہ اور بری فوج کے 1100 سے زائد اہلکاروں نے خود کشی کی ہے۔
اخبار کے مطابق جموں و کشمیر اور بھارت کی شورش زدہ شمال مشرقی ریاستوں میں طویل مدت کی تعیناتی، سیکیورٹی اہلکاروں کی دماغی صحت پر منفی اثرات ڈالنے کی وجہ بن رہی ہے۔
سی آر پی ایف کے عہدیدار ذوالفقار حسن نے بتایا کہ جموں و کشمیر میں ہر سال کی طرح رواں برس بھی سیکیورٹی اہلکاروں کے خود کشی کرنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔ لیکن اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات کیے گئے ہیں۔
'چھٹی پر جانے کی ممانعت نہیں'
سیکیورٹی اہلکاروں کو چھٹی پر گھر جانے کے سخت قواعد میں نرمی کرنے کے حالیہ فیصلوں کی وضاحت کرتے ہوئے سی آر پی ایف کے ترجمان جنید خان کا کہنا تھا کہ اہلکاروں کے چھٹی پر گھر جانے کا اب کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ خاندان میں موت واقع ہو جانے یا کسی اور ایمرجنسی کی صورت میں ایک اہلکار کو ایسی چھٹیاں بھی ملتی ہیں جو واجب نہیں ہوتیں اور جہاں تک واجب چھٹیوں کا سوال ہے۔ وہ وقت پر دی جاتی ہیں۔
ان کے بقول اس سلسلے میں ان کے اہلکاروں کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔
حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوجیوں اور دوسرے سیکیورٹی اہلکاروں کو تناؤ سے نمٹنے کے لیے مدد فراہم کرنے کی خاطر ‘ہیلپ لائنز’ قائم کی گئی ہیں اور ‘یوگا’ کلاسوں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔
ان کے بقول عسکریت پسندوں کے ساتھ مقابلوں یا ان کے حملوں میں مارے جانے والے اہلکاروں کے لواحقین اور زخمیوں کو دی جانے والی مالی امداد میں کئی گنا اضافہ کیا گیا ہے۔
حالات میں بہتری لانے کا مطالبہ
تاہم بعض اہلکاروں نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہیں انسدادِ بغاوت کی کارروائیوں میں سخت اور ناموافق ماحول میں طویل عرصے تک فرائض کی انجام دہی پر اب بھی مجبور کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے کام کے حالات میں مزید بہتری لانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ ان کے بقول ملک کی خدمت زیادہ بہتر طور پر کر سکیں۔