رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر: فرضی جھڑپ میں ملوث اہلکاروں پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ


بھارتی فوج نے ایک مرتبہ پھر یقین دہانی کرائی ہے کہ نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں اس سال جولائی میں تین مقامی مزدوروں کو مبینہ فرضی جھڑپ میں ہلاک کیے جانے کے معاملے میں انصاف ہو گا۔

فوج کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ملوث فوجی اہلکاروں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں تفصیلات جلد منظرِ عام پر لائی جائیں گی۔

بھارتی فوج پہلے ہی یہ اعتراف کر چکی ہے کہ 18 جولائی کو امشی پورہ میں کیے گئے آپریشن کے دوران قواعد کی خلاف ورزی کی گئی۔

فوج نے اعتراف کیا تھا کہ بھارتی کشمیر میں فوج کو اسپیشل پاورز ایکٹ 1990 کے تحت مسلح جدوجہد کا قلع قمع کرنے کے لیے حاصل اختیارات سے تجاوز کیا گیا۔

خیال رہے کہ اس سال 18 جولائی کو بھارتی کشمیر کے جنوبی ضلع شوپیاں کے امشی پورہ کے علاقے میں بھارتی فوج نے ایک فرضی جھڑپ میں تین مزدوروں کو ہلاک کر دیا تھا جو ایک باغ میں مزدوری کر رہے تھے۔ ان نوجوانوں کی عمریں 16 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔

واقعے کے بعد ان نوجوانوں کی تدفین کر دی گئی تھی، تاہم لواحقین کے احتجاج کے بعد قبرکشائی کے بعد ان کی لاشیں ورثا کے حوالے کی گئی تھیں۔

ورثا نے کارروائی میں ملوث اہلکاروں کو سرِ عام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم بھارتی فوج کا کہنا ہے کہ مذکورہ اہلکاروں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔

ہلاک ہونے والے نوجوانوں کے لواحقین نے واقعے کی غیر جانبدارانہ عدالتی تحقیقات اور ملوث فوجیوں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ دہرایا ہے۔

مقامی پنچایت کے سربراہ ارشد احمد نے اس مطالبے کی تائید کرتے ہوئے ہلاک شدگان کے لواحقین کو مناسب معاوضہ دینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

پولیس کے کردار پر تنقید

نوجوانوں کو مبینہ فرضی جھڑپ میں ہلاک کرنے کے بعد پولیس نے ان کی لاشوں کو ضلع بارہ مولہ کے ایک ایسے قبرستان میں دفن کیا تھا جہاں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے غیر ملکی عسکریت پسندوں کو دفنایا جاتا ہے۔

پولیس نے اس وقت یہ موقف اختیار تھا کہ ہلاک ہونے والوں کی شناخت نہیں ہو سکی تھی اور ان کی لاشیں وصول کرنے کے لیے بھی کوئی سامنے نہیں آیا تھا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے پولیس کے کردار پر سوال اُٹھایا ہے کیوں کہ واقعے کے بعد پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ہلاک ہونے والے نوجوانوں سے اسلحہ بھی برآمد ہوا تھا۔ تاہم پولیس نے اپنے موقف میں تبدیلی کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسے یہ معلومات فوج نے دی تھیں۔

بھارتی کشمیر کی پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے صحافیوں کو بتایا کہ جعلی جھڑپوں میں ملوث دو افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور ان سے پوچھ گچھ جاری ہے۔

لیکن حراست میں لیے گئے افراد کے لواحقین کا کہنا ہے کہ اصل ملزمان کو بچانے کے لیے انہیں قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔

حراست میں لیے گئے دوسرے شخص کی شناخت فیاض احمد کے طور پر کی گئی ہے اور وہ اسپیشل پولیس آفیسر ہے۔ دونوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ فوج کے لیے مخبری کا کام کر رہے تھے اور انہوں نے ہی ان تین نوجوانوں کے بارے میں غلط اور گمراہ کن اطلاعات فراہم کی تھیں۔

کشمیر کا توسہ میدان: جتنا خوب صورت، اتنا ہی خطرناک
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:50 0:00

'بھارت پر بین الاقوامی دباوٴ بڑھانے کی ضرورت ہے'

سرکردہ وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن پرویز امروز کا کہنا ہے کہ اس معاملے کو بھی اُسی طرح دبایا جائے گا جس طرح ماضی میں اس قسم کے واقعات اور ماورائے عدالت قتل کے معاملات پر پردہ ڈالا گیا اور ملوث اہلکاروں کو سزاسے بچا لیا گیا۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے بھارت پر بین الاقوامی دباؤ بڑھانے کی ضرورت ہے۔

ادھر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس معاملے میں انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے اور ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG