بھارت میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے جموں و کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔
حکمران جماعت کا مؤقف ہے کہ جمّوں و کشمیر کو پانچ اگست 2019 سے پہلے حاصل خصوصی حیثیت 'نفرت کی دیوار' کی مانند تھی اور ریاست کی تعمیر و ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی تھی۔
گزشتہ ہفتے کے اختتام پر کشمیر کی چار علاقائی جماعتوں نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، پیپلز کانفرنس اور عوامی نیشنل کانفرنس کے رہنماؤں اور بھارت کی دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کانگریس اور مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے مقامی ارکان نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ تمام جماعتیں 'گپکار اعلامیے' میں کہی گئی ہر بات پر کار بند ہیں اور چاہتی ہیں کہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت فوری طور پر بحال کی جائے اور اسے دوبارہ ایک مکمل ریاست کا درجہ دیا جائے۔
پانچ اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کے خاتمے کے اقدام سے ایک دن پہلے یہ رہنما سرینگر کے گپکار روڑ پر واقع کشمیر کے سابق وزیرِ اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے گھر پر ملے تھے اور 'گپکار اعلامیے' کے نام سے ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا۔
اس بیان میں بھارتی حکومت کو خبردار کیا گیا تھا کہ آئینِ ہند کی دفعات 370 اور 35 اے میں، جن کے تحت جمّوں و کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی، ترمیم یا ان کی منسوخی کو ریاستی عوام کے خلاف جارحیت سمجھا جائے گا اور پوری طاقت سے مزاحمت کی جائے گی۔
اُسی شام کئی رہنماؤں کو پولیس نے حراست میں لے کر عارضی جیلوں یا پھر اُن کے گھروں میں ہی نظر بند کر دیا تھا۔ تاہم حال ہی میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر اور سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی کے علاوہ ان تمام رہنماؤں کی نظر بندی ختم کر دی گئی۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے کو ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد ان رہنماؤں نے، جن میں محبوبہ مفتی بھی شامل ہیں، ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ "کشمیری عوام کو ایسا کوئی بھی اقدام قبول نہیں ہے جس میں ہماری مرضی شامل نہ ہو۔"
ان جماعتوں کے چھ رہنماؤں کی طرف سے 'گپکار اعلامیے' کا اعادہ کیے جانے پر بھارتی حکومت نے تاحال کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ لیکن حکمران جماعت بی جے پی کے مقامی یونٹ کے صدر رویندر رینہ نے جموں و کشمیر کی خود مختار حیثیت کی بحالی کے مطالبے کو مضحکہ خیز اور 'دیوانے کا خواب' قرار دیا ہے۔
رویندر رینہ نے کہا کہ "جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن نفرت کی دیوار کی مانند تھی اور ریاست کی تعمیر و ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ تھی۔ خصوصی حیثیت جموں و کشمیر میں دہشت گردی، علیحدگی اور ایک ایسے ایجنڈے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا ذریعہ تھی جسے پاکستان کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہی وجوہات ہیں کہ اس پوزیشن کو دوبارہ بحال نہیں کیا جا سکتا۔"
خیال رہے کہ بھارت پاکستان پر یہ الزام لگاتا رہا ہے کہ وہ کشمیر میں دراندازی کرتا ہے اور علیحدگی پسندوں کی مدد کرتا ہے جب کہ پاکستان تمام الزامات کو مسترد کرتا رہا ہے۔
البتہ مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے مقامی رہنما محمد یوسف تاریگامی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جمّوں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو بحال کرنے کا مطالبہ نہ تو دیوانے کا خواب ہے اور نہ ہی کوئی غیر آئینی یا غیر جمہوری عمل۔
انہوں نے کہا کہ لداخ سمیت جموں و کشمیر کے عوام کی بھاری اکثریت کا یہی مطالبہ اور حق ہے جس کے لیے وہ اور ان کے ساتھی لڑتے رہیں گے۔
یوسف تاریگامی نے کہا کہ "بی جے پی کے رہنما کچھ بھی کہتے رہیں، بھارتی حکومت کو دیر سویر جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو بحال کرنا ہی ہو گا اور وہ تمام قوانین واپس لینے ہوں گے جو پانچ اگست کے غیر جمہوری، غیر آئینی، یک طرفہ اور من مانے اقدام کے بعد جموں و کشمیر میں نافذ کیے گئے اور جن کے خلاف عوامی سطح پر غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔"
اسی دوران کشمیری رہنما سید علی شاہ گیلانی کے اہلِ خانہ نے پیر کو سرینگر میں جاری کیے گئے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ وہ تمام بیانات جن کی حالیہ دنوں میں علی گیلانی یا ان کے اہلِ خانہ سے منسوب کر کے تشہیر کی گئی یا سوشل میڈیا پر ڈالے گئے، وہ جھوٹ پر مبنی اور من گھڑت ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ سید علی گیلانی علیل ہیں۔ لہٰذا انہیں یا ان کے گھر والوں کو کسی غیر ضروری تنازع کی طرف کھینچنے کے بجائے ان کی دیکھ بھال کرنے اور ان کے علاج کی طرف دھیان مرکوز کرنے کی اجازت دی جائے۔