امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن بدھ کو ایسے وقت میں امریکہ کی صدرات کا حلف لیں گے جب افغانستان میں امریکہ کی افواج کی تعداد دو دہائیوں کی کم ترین سطح پر آ چکی ہے۔
گزشتہ برس فروری میں طالبان سے معاہدے کے تحت امریکہ کی افواج کی افغانستان میں تعداد کم کر کے 2500 کر دی گئی ہے۔ دوسری جانب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بین الافغان مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اسی اثنا میں افغانستان میں تشدد کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔
اس تناظر میں یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی افغانستان سے متعلق پالیسی کیا ہو گی؟ اور افغان امن عمل کا مستقبل کیا ہو گا؟
امریکہ کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن کی انتظامیہ کی افغان پالیسی صدر ٹرمپ کی پالیسی سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہو گی۔ کیوں کہ جو بائیڈن بھی افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کے حق میں ہیں اور 20 جنوری کو عہدہ صدارت پر فائز ہونے کے بعد صدر بائیڈن کی کوشش ہو گی کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والا معاہدہ برقرار رہے۔
'بائیڈن کی پالیسی ٹرمپ سے زیادہ مختلف نہیں ہو گی'
بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ہما بقائی کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کے بارے میں جو بائیڈن کی پالیسی صدر ٹرمپ کی پالیسی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہو گی۔
ہما بقائی سمجھتی ہیں بائیڈن انتظامیہ کی افغان پالیسی میں بڑی تبدیلی کا امکان کم ہے۔ جو بائیڈن آپریشنل معاملات سے متعلق شاید کچھ مختلف انداز اختیار کریں۔
افغان امور کے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زائی کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن کو خارجہ امور کا وسیع تجربہ ہے۔ وہ ایک طویل عرصے تک سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ براک اوباما کے ساتھ نائب صدر بھی رہ چکے ہیں۔ توقع ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کی افغان پالیسی میں غیر یقینی کا عنصر کم ہو گا۔
اُن کے بقول بائیڈن امریکی صدر کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد امریکہ کی افغان پالیسی کا نئے سرے سے جائزہ لیں گے تو اس کی روشنی میں نئے فیصلے ہوں گے۔ لیکن اس بات کا امکان نہیں ہے کہ نئی انتظامیہ کی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی ہو۔
رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ جو بائیڈن بھی افغانستان سے فورسز کو واپس بلانا چاہتے ہیں۔ امریکہ افغانستان سے متعلق خارجہ پالیسی میں شاید کوئی بڑی تبدیلی نہ کرے۔ اسی لیے امریکہ کے صدراتی انتخاب کی مہم میں افغانستان کا ذکر بہت کم تھا۔
دوسری جانب صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کو اپنی کامیابی قرار دیتے رہے ہیں۔ اگرچہ وہ اپنے وعدے کے مطابق گزشتہ برس 25 دسمبر یعنی کرسمس تک تمام فورسز کے انخلا کے اعلان پر عمل درآمد نہ کرا سکے۔
انسدادِ دہشت گردی کے لیے کچھ فوج کی افغانستان میں موجودگی
رحیم اللہ یوسف زئی کے بقول بائیڈن چاہیں گے کہ وہ افغانستان میں کچھ کامیابی حاصل کر سکیں اور امریکہ کی عوام کو یہ بتا سکیں کہ وہ بھی ایسے فیصلے کر رہے ہیں جو امریکہ کے مفاد میں ہوں گے۔
تجزیہ کار طاہر خان کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن انتظامیہ اگرچہ افغانستان سے امریکی فورسز کے مکمل انخلا کی پالیسی پر قائم رہے گی۔ لیکن نو منتخب صدر جو بائیڈن اس بات کا عندیہ دے چکے ہیں کہ انسدادِ دہشت گردی کے لیے کچھ فوج افغانستان میں رکھی جا سکتی ہے۔ تا کہ القاعدہ جیسی شدت پسند تنظیمیں امریکہ کے لیے خطرہ نہ بن سکیں۔
افغان امن عمل کا مستقبل کیا ہوگا؟
اگرچہ مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی نئی انتظامیہ کی یہ کوشش ہو گی کہ بین الافغان مذاکرات کامیابی سے ہم کنار ہوں۔ افغانستان میں پائیدار امن قائم ہو سکے تاکہ مئی میں افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کا عمل مکمل ہو جائے۔
لیکن دوسری طرف بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ہما بقائی کہتی ہیں کہ اس وقت افغانستان میں تشدد میں کمی نہیں ہو رہی۔ جب کہ ہدف بنا کر ہلاک کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔ جب کہ طالبان ابھی تک تشدد میں کمی پر تیار نہیں ہیں۔
تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ پانچ جنوری کو شروع ہونے والے بین الافغان مذاکرات کے دوسرے دور میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
ان کے بقول واشنگٹن کی کوشش ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ سال فروری میں ہونا والا معاہدہ برقرار رہے۔ لیکن یہ اسی صورت ممکن ہو گا جب تمام اسٹیک ہولڈرز ذمہ داریاں پوری کریں۔
رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا کہ ایک طرف طالبان تشدد کم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ جب کہ وہ باقی ماندہ طالبان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کرتے آ رہے ہیں۔ جب کہ افغان حکومت طالبان سے اپنی شرائط منوانا چاہتی ہے جس میں تشدد میں کمی اور جامع جنگ بندی کا معاملہ بھی شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس صورتِ حال میں آئندہ کی امریکی انتظامیہ کو بر وقت اور فوری فیصلے کرنے ہوں گے۔ بصورت دیگر امریکہ طالبان معاہدہ اور بین الافغان مذاکرات مشکلات سے دو چار ہو سکتے ہیں۔
'نئی انتظامیہ کے لیے افغانستان میں ایک غیر یقینی صورتِ حال ہو گی'
تجزیہ کار طاہر خان کہتے ہیں کہ بین الافغان مذاکرات میں نہ تو کوئی پیش رفت ہو سکی ہے اور نہ ہی فریقین بات چیت کے ایجنڈے پر اتفاق کر سکے ہیں۔ تشدد کے واقعات میں بھی کمی نہیں ہوئی۔ امریکہ کی نئی انتظامیہ کے لیے افغانستان میں ایک غیر یقینی صورتِ حال ہو گی اور یہ کہ اس چیلنج سے کیسے نمٹا جا سکے گا۔
یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ برس 29 فروری کو طے پانے والے معاہدے کے تحت اپریل 2021 کے آخر تک افغانستان میں تعینات تمام غیر ملکی فورسز کا انخلا ہونا ہے۔
طالبان اس معاہدے کے تحت اس بات کے پابند ہیں کہ وہ القاعدہ یا کسی دیگر شدت پسند گروہ کو اپنے کنٹرول والے علاقوں میں سرگرم ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔
زلمے خلیل زاد کا مستقبل کیا ہو گا؟
دوسری طرف تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بائیڈن انتظامیہ میں شاید کچھ عرصے کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد ہی ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں۔
یاد رہے کہ واشنگٹن اور طالبان کے درمیان امن معاہدے میں امریکہ کے افغانستان کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور تمام علاقائی طاقتوں کے ساتھ زلمے خلیل زاد کے رابطے رہے ہیں۔
رحیم اللہ یوسف زئی کے بقول ابھی اس بات کا امکان موجود ہے کہ جو بائیڈن کی انتظامیہ شاید کچھ عرصے کے لیے زلمے خلیل زاد کو ذمہ داریوں پر فائض رکھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ زلمے خلیل زاد نے کرایا ہے۔ بین الافغان معاہدہ کرانے میں ان کا ایک کلیدی کردار رہا ہے۔
ان کے مطابق اس خطے اور دیگر تمام علاقائی طاقتوں کے ساتھ خلیل زاد کا رابطہ رہا ہے۔ افغانستان سے متعلق امریکہ کی پالیسی کے تسلسل کے لیے شاید وہ کچھ عرصے کے لیے کام کرتے رہیں۔ لیکن یہ عین ممکن ہے کہ بعد ازاں جو بائیڈن اپنے کسی عہدیدار کو افغانستان کے لیے نمائندۂ خصوصی مقرر کر سکتے ہیں۔
تجزیہ کار طاہر خان کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان کسی حد تک موجود ہے کہ کچھ عرصے کے خلیل زاد اپنی موجودہ ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں۔
ان کے خیال میں افغان امن عمل سے متعلق کئی معاملات طے پا چکے ہیں۔ اب ان پر صرف عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے۔ تو خلیل زاد موجودہ حیثیت میں برقرار نہیں رہتے تو پھر بھی شاید صورتِ حال پر کوئی بڑا فرق نہیں پڑے گا۔
اشرف غنی کی حکومت کا فی الحال امریکہ میں بائیڈن انتظامیہ کی افغان پالیسی کے حوالے سے کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا۔ لیکن افغان نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان رحمت اللہ اندار کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن عامہ سے متعلق 95 فی صد سے زائد کارروائیاں خود افغان سیکیورٹی فورسز انجام دے رہی ہیں اور یوں ملک میں امریکی فوجیوں کی تخفیف سے افغانستان کی سیکیورٹی کی صورتِ حال پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔