امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) کا کہنا ہے کہ بین الافغان مذاکرات کے پیشِ نظر نومبر تک افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد گھٹا کر 5000 سے بھی کم کر دی جائے گی۔
پیر کو پینٹاگون کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اگلے چار ماہ کے دوران افغانستان سے فوج کے مرحلہ وار انخلا کا عمل جاری رکھے گا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ماضی کی طرح فوج کا انخلا افغانستان کے حالات سے مشروط ہو گا جب کہ اس میں کانگریس سے مشاورت کے علاوہ نیٹو اتحادیوں کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔
پینٹاگون کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں فوج کی تعداد سے زیادہ اُن کی صلاحیتوں پر توجہ مرکوز ہے۔ فوج افغان سیکیورٹی فورسز کی تربیت اور استعداد کار بڑھانے کے عمل میں شریک رہے گی۔
پینٹاگون کے بیان میں بین الافغان مذاکرات کو افغانستان میں سیاسی تصفیے کے لیے ناگزیر قرار دیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ رواں سال طالبان کے ساتھ طے پانے والے امن معاہدے پر پوری طرح کاربند ہے اور بین الافغان مذاکرات میں معاونت اور ان کی کامیابی کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
اس سے قبل امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے بھی ہفتے کو ایک بیان میں افغانستان میں فوج کی تعداد گھٹا کر 5000 ہزار کرنے کی تصدیق کی تھی۔
گزشتہ ہفتے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کہا تھا کہ نومبر میں صدارتی الیکشن تک افغانستان میں فوج کی تعداد چار سے پانچ ہزار کے درمیان ہو گی۔
خیال رہے کہ اس وقت افغانستان میں 8600 امریکی فوجی تعینات ہیں۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں سال طے پانے والے امن معاہدے میں افغانستان سے امریکی فوج کی مرحلہ وار واپسی کی شق بھی شامل تھی۔
معاہدے میں یہ بھی طے پایا تھا کہ اگر طالبان معاہدے کی شرائط پر پوری طرح کاربند رہتے ہیں تو امریکہ مئی 2021 تک افغانستان سے اپنی فورسز کو نکال لے گا۔
امریکی وزیر دفاع نے کہا تھا کہ فوج کے انخلا سے قبل پینٹاگون اس بات کو یقینی بنائے گا کہ اب افغانستان کی سرزمین امریکہ کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔
امریکہ، طالبان معاہدے کے تحت طالبان نے یہ ضمانت دی تھی کہ ان کے زیرِ اثر علاقوں میں کسی بھی ایسے شدت پسند گروپ کو منظم ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی جو امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ ہو۔
خیال رہے کہ افغان لویہ جرگہ کی جانب سے طالبان کے سنگین جرائم میں ملوث 400 قیدیوں کی رہائی کی سفارش کے بعد بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے اتوار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ طالبان قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل ہونے کے بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بین الافغان امن مذاکرات جلد شروع ہو جائیں گے۔