رسائی کے لنکس

بین الافغان مذاکرات پر پیش رفت کے لیے خلیل زاد خطے کے دورے پر روانہ


فائل
فائل

امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت، سفیر زلمے خلیل زاد ہفتے کے روز قطر، پاکستان اور افغانستان کے دورے پر روانہ ہوئے؛ جس کے بعد وہ بلغاریہ اور ناروے بھی جائیں گے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ دوحہ اور کابل میں خلیل زاد بین الافغان مذاکرات کے آغاز سے قبل درپیش باقی ماندہ مسائل کے حل پر زور دیں گے، خاص طور پر وہ قیدیوں کے حتمی تبادلے اور تشدد کی کارروائیوں میں کمی لانے پر زور دیں گے۔

اسلام آباد پہنچنے پر سفیر زلمے خلیل زاد بین الافغان بات چیت کے معاملے کو بڑھاوا دینے کے سلسلے میں پاکستان کی حمایت کی کوشش کریں گے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ اوسلو اور صوفیہ کے دورے میں وہ افغان امن عمل کے حوالے سے پیش رفت پر نیٹو اتحادیوں کو بریف کریں گے۔

بین الافغان مذاکرات کے بارے میں بیان میں کہا گیا ہے کہ ''تمام فریق بات چیت کا آغاز کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں، جس کے بعد اگلا کلیدی قدم افغانستان کی 40 سالہ لڑائی کا خاتمہ لانا ہے''۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ''حالانکہ قیدیوں کے تبادلے پر اہم پیش رفت حاصل کی گئی ہے۔ تاہم، معاملے کے مکمل تصفیے کے لیے اضافی کوشش درکار ہے''۔

افغان امور کے تجزیہ کار اور صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ امریکی عہدیدار بشمول زلمے خلیل زاد اس وقت تک اس خطے میں آتے رہیں گے جب تک افغان تنازع حل نہیں ہو جاتا۔ ان کے بقول اس تنازع کو سیاسی حل کے لے امریکہ کو تعاون چاہیے جہاں سے بھی انہیں مل جائے۔

انہوں نے کہا کہ امریکی سفارت کار خلیل زاد کا خطے کا تازہ دورہ افغان تنازع کو حل کرنے کے لیے ان کی ایک نئی سفارتی کوشش ہے۔

اگرچہ پاکستان نے افغان امن عمل میں اہم کردار ادا کیا ہے جسے امریکہ بھی تسلیم کرتا ہے۔ لیکن رحیم اللہ یوسف زئی کے بقول امریکہ اب بھی یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کا طالبان پر کافی اثر و رسوخ ہے اور اسلام آباد بین الافغان مذاکرات کے مرحلے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

امریکہ اس بات کا خواہاں ہے کہ پاکستان طالبان پر زور ڈالے کہ وہ حملے کم کر دیں اور جنگ بندی کریں۔

یادر ہے کہ افغان حکومت نے 5000 طالبان قیدیوں میں سے 4400 قیدیوں کو رہا کر دیا ہے جب کہ طالبان نے افغان حکومت کے 1000 قیدیوں میں سے لگ بھگ 900 کو رہا کیا ہے۔

جمعے کو افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی سفیر زلمے خلیل زاد نے کہا کہ جنگ زدہ ملک میں تشدد کی بہت وارداتیں ہوئی ہیں۔ تاہم، پچھلے سال کے مقابلے میں افغان سیکورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان جھڑپوں میں سرکاری سیکورٹی فورسز کے اہل کاروں کی ہلاکتیں 35 سے 40 فی صد کم ہوئی ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ فروری میں امریکہ طالبان امن معاہدے کے بعد کوئی بھی امریکی یا اتحادی فوجی ہلاک نہیں ہوا۔

یونائٹیڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے فورم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یہ باتیں کیں۔

خلیل زاد کا یہ تخمینہ افغان حکام کے اس موقف سے متضاد ہے۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ طالبان امریکہ امن معاہدے کے بعد تشدد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور یہ کہ طالبان نے سینکڑوں سرکاری سیکورٹی اہل کاروں اور شہریوں کو ہلاک کیا ہے۔

زلمے خلیل زاد نے فورم کو بتایا کہ تشدد میں حالیہ اضافے اور قیدیوں کے تبادلے میں تاخیر کی وجہ سے بین الافغان امن مذاکرات میں تاخیر ہو رہی ہے۔

طالبان امریکہ امن معاہدے کے اگلے دو مراحل بے حد اہم ہیں۔

خلیل زاد نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ افغانستان میں تشدد کی موجودہ سطح سے مطمئن نہیں ہے۔ امریکی حکومت حکومت افغانستان اور مخالفین کے ساتھ مل کر یہ کوشش کر رہی ہے کہ تشدد کو کم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں اس میں کمی آئے گی۔

افغان قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے ہفتے کے روز ٹوئٹ کرتے ہوئے بظاہر خلیل زاد کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ تشد میں بالکل کمی نہیں آئی۔

ترجمان جاوید فیصل نے کہا کہ صرف ایک ہفتے کے دوران طالبان نے401 دہشت گرد وارداتوں میں 46 شہریوں کو ہلاک اور 93 کو زخمی کیا ہے۔ امن کے لیے عزم کی ضرورت ہے جو طالبان کے اقدامات میں مفقود ہے۔

فورم سے خطاب کرتے ہوئے خلیل زاد نے یہ بھی کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ افغان حکومت نے 5000 طالبان قیدیوں میں سے 4400 قیدیوں کو رہا کر دیا ہے، جبکہ طالبان نے 1000 سیکورٹی فورسز اہل کاروں میں سے 861 کو رہا کر دیا ہے۔

خصوصی امریکی سفیر کا کہنا ہے کہ اس مشکل سفر کا کافی راستہ طئے ہو گیا ہے۔ مگر اگلے چند میل بہت کٹھن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ قیدیوں کے تبادلے کے سلسلے میں اپنے وعدے پر قائم ہے اور دونوں فریقوں کی مدد کر رہا ہے، تاکہ امن مذاکرات جلد از جلد شروع کیے جا سکیں۔

خلیل زاد کی اس تقریر سے ایک روز قبل طالبان نے کہا تھا کہ اگر عید الضحیٰ سے قبل تمام قیدی رہا کر دیے جائیں تو وہ اس کے فوراً بعد بین الافغان مذاکرات میں شمولیت کے لیے تیار ہے۔ مگر افغان حکومت اس کے لیے تیار نظر نہیں آ رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے جو قیدی سنگین جرائم میں ملوث ہیں انہیں رہا نہیں کیا جا سکتا۔

خلیل زاد نے یہ بھی بتایا کہ امریکہ معاہدے میں کیے گئے وعدوں کی تکمیل کر رہا ہے۔ یہ اپنے فوجیوں کی تعداد کو کم کر کے 8600 پر لے آیا ہے اور اس نے افغانستان میں اپنے پانچ اڈے خالی کر دیے ہیں۔ بقیہ امریکی فوجیوں کا انخلا جولائی 2120 تک مکمل ہو جائے گا۔ اب ہمیں دیکھنا ہے کہ طالبان اپنے وعدوں کو پورا کرتے ہیں یا نہیں، کیوںکہ ہمارے وعدوں کا انحصار ان کے وعدوں پر ہے۔

وضاحت کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ طالبان کو افغانستان میں موجود امریکی اور اتحادی فوجیوں کے خلاف حملوں کو روکنا ہوگا۔ طالبان نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ مکمل اور مبسوط فائر بندی کے لیے طالبان کو بین الافغان امن مذاکرات میں شرکت کرنا ہو گی۔

XS
SM
MD
LG