پاکستان کے دورے پر آئے افغان طالبان کے وفد نے اسلام آباد میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت اعلٰی حکام سے ملاقات کی ہے۔ دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق ملاقات میں افغانستان کی سیاسی صورتِ حال اور بین الافغان مذاکرات پر تبادلہ خیال ہوا۔
دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ منگل کو پاکستان کے دفترِ خارجہ میں ہونے والی اس ملاقات میں افغان طالبان کے وفد نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد سے متعلق پیش رفت سے آگاہ کیا۔
ملاقات کے دوران پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جینس کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید بھی موجود تھے۔
اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لیے بین الافغان امن مذاکرات کے جلد انعقاد کا خواہاں ہے۔
خیال رہے کہ افغان طالبان کا وفد ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں پیر کو پاکستان پہنچا تھا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کا شروع ہی سے یہ موقف رہا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا دیرپا حل بین الافغان مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان اس عمل میں اپنا مصالحانہ کردار ادا کرتا رہے گا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کی کوششوں کے نتیجے میں رواں سال فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پایا۔
انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ افغان قیادت افغانستان میں قیامِ امن کے لیے اس نادر موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائے گی۔
دفتر خارجہ کے اعلامیے کے مطابق ملاقات کے دوران وزیر خارجہ نے امن عمل کو سبوتاژ کرنے والے عناصر کے بارے میں بھی طالبان کو آگاہ کیا۔
طالبان کا یہ وفد ایک ایسے وقت میں پاکستان کا دورہ کر رہا ہے جب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے بین الافغان مذاکرات میں تاخیر ہو رہی ہے۔
امریکہ سمیت بین الاقوامی برادری تمام فریقوں پر زور دے رہی ہے کہ وہ بین الافغان مذاکرات شروع کر کے افغان کے سیاسی مستقبل کا تعین کریں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بین الافغان مذاکرات میں بھی پاکستان کا اہم کردار ہو سکتا ہے۔
افغان اُمور کے تجزیہ کار طاہر خان نے کہا کہ طالبان کا اسلام آباد کا دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
طاہرخان کے بقول انہوں نے پاکستانی حکام سے یہ سنا ہے کہ پاکستان امریکی حکام کو یہ باور کرا چکا ہے کہ جب کبھی بھی افغان امن عمل میں کوئی مشکل حائل ہوئی تو پاکستان اس کو حل کرنے کی کوششوں میں اپنا کردار ادا کرے گا۔
ان کے بقول تاحال بین الافغان مذاکرات شروع نہیں ہوئے، لہذٰا پاکستان اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے گا۔
طالبان کا اصرار ہے کہ جب تک اُن کے پانچ ہزار قیدیوں کی مکمل رہائی نہیں ہو جاتی، وہ بین الافغان مذاکرات شروع نہیں کریں گے۔
دوحہ معاہدے کے تحت افغان حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار جب کہ طالبان نے افغان حکومت کے لگ بھگ ایک ہزار قیدی رہا کرنا تھے۔
افغان حکومت ان میں سے بیشتر طالبان قیدی رہا کر چکی ہے تاہم اب بھی کچھ قیدی افغان جیلوں میں موجود ہیں۔
تجزیہ کار طاہر خان کے بقول اگر بین الافغان مذاکرات شروع نہیں ہوں گے تو طالبان کے ساتھ طے پانے والے امریکہ کے معاہدے پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ لیکن امریکہ چاہتا ہے کہ افغان امن عمل میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہوں تاکہ بین الافغان مذاکرات جلد شروع ہو سکیں۔
ان کے بقول پاکستان کی کوشش ہے کہ طالبان کو بین الافغان مذاکرات پر قائل کیا جا سکے۔ امریکہ کو یہ بھی توقع ہے کہ پاکستان افغان امن عمل کی راہ میں حائل مشکلات کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔
دوسری طرف افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ حنیف اتمر نے ایک انٹرویو کے دوران طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ لچک کا مظاہرہ کریں۔
حنیف اتمر کے بقول افغان حکومت نے اپنے وعدے پر عمل کرتے ہوئے طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کر رہا کر دیا ہے جن کا طالبان سے وعدہ کیا گیا تھا۔
ان کے بقول افغان حکومت طالبان کے مزید قیدی رہا کرنے پر تیار ہے اگر طالبان بھی اپنی تحویل میں موجود افغان حکومت کے قیدیوں کو رہا کریں۔
تاہم حنیف اتمر کے بقول علاقائی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے تعاون سے یہ معاملہ سلجھ سکتا ہے۔
دوسری جانب طالبان کا اصرار ہے کہ قیدیوں کی رہائی کے لیے اُنہوں نے جو فہرست افغان حکومت کو دی تھی، اسی کے تحت تمام قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل ہونا چاہیے۔