افغان حکومت نے طالبان کے 600 کے لگ بھگ اُن قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کر دیا ہے جن کے بارے میں افغان عہدے داروں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ سنگین جرائم میں ملوث ہیں۔ حکومت نے طالبان کو پیش کش کی ہے کہ وہ ان قیدیوں کے بجائے دیگر قیدیوں کو رہا کر سکتی ہے۔
افغانستان کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغان حکومت طالبان کے 4019 قیدیوں کو رہا کر چکی ہے۔
ان کے بقول طالبان نے افغان حکومت کے ایک ہزار قیدیوں میں سے صرف 614 قیدیوں کو رہا کیا ہے جن میں افغان سیکیورٹی فورسز کے 408 اہل کار شامل ہیں جب کہ دیگر عام افغان شہری ہیں۔
رواں سال 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طے پانے والے امن معاہدے کے تحت افغان حکومت نے لگ بھگ پانچ ہزار طالبان قیدی جب کہ طالبان نے ایک ہزار سے زائد افغان حکومت کے قیدیوں کو رہا کرنا ہے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کی طرف سے ان کے 600 قیدیوں کی رہائی سے انکار کی وجہ سے بین الافغان مذاکرات میں تاخیر ہو سکتی ہے۔
افغان قومی سلامتی کونسل کے ترجمان فیصل کے بقول اگرچہ افغان حکومت طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کرنے کے عزم پر قائم ہیں لیکن ان کے بقول طالبان کی طرف سے فراہم کردہ فہرست کے مطابق وہ 600 کے لگ بھگ طالبان قیدیوں کو رہا نہیں کریں گے جو سنگین جرائم میں ملوث رہے ہیں۔
افغان سیکیورٹی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل کے بقول اس وقت افغان حکومت کی قید میں 12 ہزار سے زائد طالبان قیدی موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغان حکومت نے طالبان کو پیش کش کی ہے کہ اگر طالبان ان 592 قیدیوں کی رہائے کے بجائے اتنی ہی تعداد میں افغان جیلوں میں قید دیگر قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں تو افغان حکومت اس کے لیے تیار ہے۔
جاوید فیصل نے واضح کیا کہ وہ طالبان قیدیوں کی رہائی کا عمل جاری رکھیں گے لیکن ان طالبان قیدیوں کو رہا نہیں کیا جا سکتا جو منشیات کی اسمگلنگ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی درخواست کے باوجود افغانستان کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان کے تازہ بیان پر طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
لیکں اس سے قبل ازیں ذبیح اللہ مجاہد نے سماجی میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا تھا کہ 600 طالبان قیدیوں کو رہا نہ کرنے کا افغان حکومت کا فیصلہ امن عمل میں رکاوٹ ڈالے گا اور اس سے بین الافغان مذاکرات میں بھی تاخیر ہو گی۔
ادھر دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ طالبان نے جمعے کو افغان سیکیورٹی فورسز کے مزید 15 قیدیوں کو رہا کر دیا ہے۔
دریں اثنا افغانستان کے لیے جرمنی کے نمائندہ خصوصی پوٹزل مارکس نے اس بات کی تصدیق کی ہے انہوں نے بدھ کو دوحہ میں طالبان کے نائب سربراہ ملا عبدالغنی برادر سے ملاقات کی ہے۔
طالبان ترجمان سہیل شاہین نے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ پوٹزل اور ملابرادر کی ملاقات میں قیدیوں کی رہائی، افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا اور بین الافغان مذکرات اور امن عمل کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔
افغان امن عمل کے لیے ویڈیو کانفرنس کا اہتمام
دوسری طرف جمعرات کو کابل میں افغان امن عمل کے بارے میں افغان حکومت کی میزبانی میں ایک ویڈیو کانفرنس کا اہتمام کیا جا رہا ہے جس میں یورپی یونین، اقوامِ متحدہ اور نیٹو کے علاوہ 20 ملکوں کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔
افغان وزارتِ خارجہ کے ترجمان گران ہیواد کے مطابق کانفرنس میں قیدیوں کی رہائی، افغان امن عمل، تشدد میں کمی اور افغانستان میں مستقل جنگ بندی کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ ان کے بقول اس کانفرنس کا مقصد افغان امن عمل کے بارے میں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔
یاد رہے کہ کابل میں جمعرات کو ہونے والی کانفرنس پیر اور منگل کو ہونے والےاجلاسوں کا تسلسل ہے۔ گران ہیواد کے بقول پیر کو ہونے والی ویڈیو کانفرنس میں علاقائی اور ہمسائیہ ممالک کے نمائندوں کے ساتھ امریکہ، اقوامِ متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم کے مندوب نے بھی شرکت کی تھی۔
اُن کے بقول منگل کو ہونے والی ویڈیو کانفرنس میں چین، پاکستان اور افغانستان کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ یہ تین ملکوں کے درمیان قبل ازیں ہونے والے سہ فریقی اجلاسوں کا حصہ تھی۔