روس نے کہا ہے کہ افغانستان میں امریکہ یا نیٹو کے فوجی اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے بدلے میں طالبان کو انعام دینے کی پیشکش کے الزامات بے بنیاد ہیں۔
امریکہ میں روسی سفارت خانے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بے بنیاد الزامات کی وجہ سے امریکہ اور برطانیہ میں روس کے سفارتی عملے کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے بھی کہا ہے کہ روس کی جانب سے مبینہ انعام دینے کی پیشکش کے معاملے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ یا نائب صدر مائیک پینس کو کسی بھی قسم کی کوئی بریفنگ نہیں دی گئی۔
خیال رہے کہ امریکی اخبار 'نیویارک ٹائمز' میں ایک رپورٹ میں امریکی خفیہ اداروں کے نامعلوم عہدے داروں کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ روس کے خفیہ ادارے کے ایک یونٹ نے طالبان سے منسلک عسکریت پسندوں کو افغانستان میں اتحادی افواج اور امریکی فوجیوں کو ہدف بنا کر ہلاک کرنے کے بدلے میں خفیہ طور پر انعام و اکرام دینے کی پیش کش کی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس پیش کش کا مقصد افغانستان میں طویل عرصے سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے امن مذاکرات کو نقصان پہنچانا تھا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ 2019 میں افغانستان میں لڑائی کے دوران 20 امریکی ہلاک ہوئے تھے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ کن ہلاکتوں پر شک کیا جا رہا ہے کہ ان کا تعلق مذکورہ انعام سے تھا۔
اخبار کا کہنا تھا کہ خفیہ معلومات کے بارے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو آگاہ کر دیا گیا تھا جس کے بعد حکام نے ممکنہ آپشنز بھی تیار کیے تھے۔ جن میں ماسکو سے سفارتی شکایت سمیت دیگر آپشن شامل تھے۔
تاہم اب وائٹ ہاؤس کی جانب سے اس کی تردید سامنے آئی ہے۔
دوسری جانب طالبان نے بھی روس کے خفیہ اداروں سے کسی بھی قسم کی ڈیل ہونے کی اطلاعات کی سختی سے تردید کی ہے۔
غیر ملکی فوجیوں یا افغان اہلکاروں پر حملوں کے حوالے سے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ ہمارے ہدف بنا کر قتل یا قاتلانہ حملوں کی کارروائیوں کا سلسلہ کئی برس سے جاری ہے جب کہ طالبان نے یہ تمام کارروائیاں اپنے وسائل کو استعمال میں لاتے ہوئے کی ہیں۔
روس کے امریکہ میں سفارت خانے نے ٹوئٹس میں کہا ہے کہ امریکہ کا اخبار جھوٹی خبریں پھیلا رہا ہے۔
سفارت خانے نے امریکہ کے متعلقہ اداروں سے ویانا کنوینشن کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ اور طالبان میں رواں برس امن معاہدہ ہوا ہے۔
گزشتہ برس ستمبر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات اچانک ختم کرنے اعلان کیا تھا۔ صدر نے مرحلہ وار ٹوئٹس میں کہا تھا کہ انہوں نے طالبان نمائندوں اور صدر اشرف غنی کو کیمپ ڈیوڈ مدعو کیا تھا۔ تاہم طالبان کی جانب سے کابل میں کار بم حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد انہوں نے اپنا فیصلہ تبدیل کیا۔
واضح رہے کہ کابل میں ہونے والے اس حملے میں ایک امریکی فوج ہلاک ہوا تھا۔
بعد ازاں امریکہ اور طالبان میں ایک بار پھر مذاکراتی عمل شروع ہوا اور رواں برس فروری میں دونوں میں امن معاہدے پر دستخط ہوئے۔
اس معاہدے کے مطابق امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک 14 ماہ کے دوران افغانستان سے اپنے تمام فوجیوں کا انخلا یقینی بنائیں گے۔ تاہم ایسا اس صورت میں ہوگا جب طالبان جنگ بندی کے وعدوں کی پاسداری کریں گے۔
اسی طرح یہ بھی طے کیا گیا کہ افغان حکومت طالبان کے پانچ ہزار قیدی رہا کرے گی جب کہ طالبان افغان حکومت کے ایک ہزار اہلکاروں کو رہا کریں گے۔ قیدیوں کی رہائی کا یہ سلسلہ سست روی کے ساتھ جاری ہے۔
قیدیوں کی رہائی کے بعد بین الافغان مذاکرات شروع ہونے تھے جس میں افغانستان کے مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جانا تھا۔
فروری میں طالبان سے معاہدے کے وقت صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ طالبان کی جانب سے یقین دہانیوں کی خلاف ورزی برداشت نہیں کی جائے گی۔