پاکستان، روس، چین اور ایران نے افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو تیز کرنے اور بین الافغان مذاکرات جلد از جلد شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
چاروں ملکوں کے افغانستان سے متعلق خصوصی نمائندوں نے پیر کو ویڈیو کانفرنس پر منعقدہ اجلاس میں افغانستان میں جامع جنگ بندی کا بھی مطالبہ کر دیا ہے۔
یہ کانفرنس روس کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ضمیر کبولوف کی میزبانی میں ہوئی۔ کانفرنس میں افغانستان کے لیے چین کے خصوصی ایلچی لیو جان، پاکستان کے سفیر صفدر حیات اور افغانستان کے لیے ایران کے خصوصی مندوب محمد ابراهیم طاهریان فرد نے نمائندگی کی۔
چاروں ملکوں کا یہ مشترکہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حال ہی میں افغانستان کے حریف سیاسی رہنماؤں افغان صدر اشرف غنی اور عبدللہ عبداللہ کے درمیان شرکت اقتدار کا ایک معاہدے طے پا گیا ہے۔
روس، چین، پاکستان اور ایران نے صدر غنی اور عبداللہ عبدللہ کے درمیان طے پانے والے شرکت اقتدار کے معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ اس اہم پیش رفت سے بین الافغان مذاکرات جلد شروع کرنے میں مدد ملے گی۔
چار ملکوں کے سفارت کاروں نے افغان قیادت اور سرپرستی میں امن و مصالحت کے عمل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں پائیدار امن کا حصول جامع بین الافغان مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
خطے کے اہم ممالک نے افغان تنازع کے تمام فریقوں بشمول طالبان پر زور دیا کہ وہ موقع سے فائدہ اٹھا کر بین الافغان امن مذکرات کے جلد شروع کرنے کا ماحول بنائیں۔
مشترکہ بیان میں افغٖان حکومت اور طالبان کی طرف سے ایک دوسرے کے قیدیوں کی رہائی کے عمل کی حمایت کا بھی اظہار کیا ہے۔
یادر ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو طے پانے والے معاہدے کے تحت افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کا ٹائم ٹیبل طے ہوا تھا۔ معاہدے کے تحت افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدون کے تبادلے کے بعد 10 مارچ سے بین الافغان مذاکرات کا بھی آغاز ہونا تھا۔
لیکن قیدیوں کے تبادلے میں سست روی اور افغانستان میں تشدد کی کارروائیوں میں اضافے کی وجہ سے یہ عمل تاحال شروع نہیں ہو سکا۔
روس، چین، پاکستان اور ایران کے سفارت کاروں نے افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے منظم اور ذمہ دارانہ انخلا کا بھی مطالبہ کیا ہے تاکہ افغانستان میں پائیدار امن قائم ہو سکے۔
مندوبین نے افغان فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ القاعدہ، داعش اورخطے کے ممالک کے خلاف کام کرنے والی دیگر بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف سنجیدہ اقدام اٹھائیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ ملک میں منشیات کی تیاری اور منشیات فروشی کے خلاف اقدامات کیے جائیں۔
افغان امور کے تجزیہ کار اور صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ روس، چین، پاکستان اور ایران خطے کے اہم ملک ہیں اور افغانستان سے متعلق ان کا مشترکہ بیان افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کا ہی حصہ ہے۔
لیکن رحیم اللہ یوسف زئی کے خیال میں ان چار ملکوں کا اس معاملے پر موقف امریکی موقف کے بھی قریب ہے۔ امریکہ بھی افغانستان میں جنگ بندی اور فورسز کا انخلا چاہتا ہے۔
رحیم اللہ کے خیال میں تشدد میں کمی اورجنگ بندی کی بات کی جارہی ہے اس کے مخاطب طالبان بھی ہیں اگرچہ طالبان کی اپنی شرائط ہیں۔ جب بین الافغان مذکرات شروع ہوں گے تو پھر وہ ان معاملات پر بات کریں گے۔
رحیم اللہ کے بقول امریکہ کے علاوہ خطے کے علاقائی ممالک روس، چین، پاکستان اور ایران بھی اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ ان بین الاقوامی کوششوں کو مربوط کرنے کی ضروت ہے تاکہ افغانستان میں پائیدار امن قائم ہو سکے۔
دوسری طرف امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر عمل درامد کے لیے ایک بار پھر سرگرم ہیں۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ کے بیان کے مطابق خلیل زاد اتوار کو دوحہ اور کابل کے لیے روانہ ہوئے۔
خلیل زاد اپنے تازہ سفارتی دورے پر اس دن روانہ ہوئے جب اتوار کو افغانستان کے دو بڑے سیاسی حریفوں صدر اشر ف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان شراکت اقتدار کا معاہدہ طے پایا تھا۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ کی طرف سے پیر کو جاری ہونے والے بیان کے مطابق دوحہ میں خلیل زاد طالبان کے نمائندوں سے ملاقات میں امریکہ اور طالبان معاہدے پرعمل درآمد کے معاملے پر تبادلہ خیال کریں گے۔ اس کے ساتھ خلیل زاد طالبان پر بین الافغان مذاکرات شروع کرنے لیے ضروری اقداما ت بشمول تشدد میں نمایاں کمی کرنے پر بھی زور دیں گے۔
کابل کے دورے کے دوران خلیل زاد افغان حکام سے ملاقاتوں میں بین الافغان مذکرات جلد شرو ع کرنے کے لیے لائحہ عمل طے کرنے پر بھی مشاورت کریں گے۔