رسائی کے لنکس

'نیب کا سارک اینٹی کرپشن فورم کا سربراہ منتخب ہونا معمول کی بات ہے'


قومی احتساب بیورو کو سارک ممالک کے ادارہ برائے انسدادِ بدعنوانی کا سربراہ منتخب ہونے پر مبصرین کا کہنا ہے کہ نیب پاکستان میں چاہے کتنا ہی متنازع کیوں نہ ہو لیکن نیب حکام کو یہ کہنے کا موقع ضرور ملے گا کہ ان کے ادارے کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی ہے۔ (فائل فوٹو)
قومی احتساب بیورو کو سارک ممالک کے ادارہ برائے انسدادِ بدعنوانی کا سربراہ منتخب ہونے پر مبصرین کا کہنا ہے کہ نیب پاکستان میں چاہے کتنا ہی متنازع کیوں نہ ہو لیکن نیب حکام کو یہ کہنے کا موقع ضرور ملے گا کہ ان کے ادارے کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی ہے۔ (فائل فوٹو)

جنوبی ایشیائی ممالک کی علاقائی تعاون کی تنظیم سارک نے پاکستان کے ادارے قومی احتساب بیورو (نیب) کو سارک اینٹی کرپشن فورم کا سربراہ منتخب کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ایک اعزازی عہدہ ہے لیکن نیب کے پاس اب ایک اچھا موقع ہے کہ اپنی کارکردگی صحیح معنوں میں درست کر سکے۔

سارک ممالک کی جانب سے پاکستان کے ادارے نیب کو سارک اینٹی کرپشن فورم کی صدارت ملنے پر قومی احتساب بیورو نے بھی خوشی کا اظہار کیا ہے۔

قومی احتساب بیورو نے اپنی ویب سائٹ پر جاری بیان میں کہا ہے کہ نیب کو سارک اینٹی کرپشن فورم کی صدارت ملنا پاکستان کے لیے خوشی کی بات ہے۔ نیب نہ صرف پاکستانی اداروں بلکہ سارک ممالک کے اداروں کے لیے بھی ایک مشعل راہ ہے۔

پاکستان کے انگریزی روزنامے 'ڈان' کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر اشعر رحمٰن کی رائے میں اِس عہدے کی کوئی اہمیت ہو یا نہ ہو لیکن یہ کہا تو جا سکتا ہے کہ پاکستان کا ایک ادارہ نیب سارک اینٹی کرپشن فورم کا سربراہ منتخب ہوا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اشعر رحمٰن نے کہا کہ نیب پاکستان میں چاہے کتنا ہی متنازع کیوں نہ ہو لیکن نیب حکام کو یہ کہنے کا موقع ضرور ملے گا کہ ان کے ادارے کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی ہے۔

اشعر رحمٰن کہتے ہیں کہ نیب بحیثیت ادارہ اب یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر نیب اتنا ہی برا ہوتا تو عالمی سطح پر اُس کی یوں پذیرائی نہ ہوتی۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ نیب حکام سیاسی باتیں کرتے ہیں اور سیاسی بیانات دیتے رہتے ہیں۔ اِس عہدے کے بعد نیب حکام کو دوبارہ ایسے بیانات دینے کا موقع ملے گا۔

'نیب عہدے کو نیک نامی کے لیے استعمال کرے گا'

ان کا کہنا تھا کہ نیب اِس عہدے کو اپنی نیک نامی کے لیے استعمال کرے گا کیونکہ نیب ایک سیاسی لڑائی بھی لڑتا ہے۔ جو باتیں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں کرتی ہیں ان کا بھی وہ دفاع کرتا ہے۔

نیب حکام کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ ہر چیز کا جواب دیتے ہیں۔ اخبار میں کوئی بھی خبر چھپ جائے تو اس کا بھی بھر پور انداز سے جواب دینے کی اُن کو عادت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر حزب اختلاف کی کوئی سیاسی جماعت کچھ کہے تو اُس کا فوراً جواب دیا جاتا ہے۔

اشعر رحمٰن کے بقول نیب کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے جو عملی کام کر رہا ہے۔ نیب کو اِس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ لوگ اُس کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں۔ اِس طرح کی پذیرائی سے تو اُن کے اعلیٰ حکام بھی خوش ہوں گے۔

ادارے کے اعلیٰ حکام کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جس طرح وہ نیب کو چلا رہے ہیں وہ سرکاری ادارے کے طور پر نہیں چلا رہے۔ وہ تو اسے ایسے چلا رہے ہیں جیسے اُن کے پاس کوئی بہت بڑی اخلاقی جواز ہے۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے وہ ایک سیاسی جماعت کے طور پر نیب کو چلا رہے ہیں۔

'سارک اینٹی کرپشن فورم کی سربراہی نیب کو ملنا معمول کی بات ہے'

لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں سیاسیات کے اُستاد پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس سمجھتے ہیں کہ سارک ایک ایسی تنظیم ہے جس میں بھارت پاکستان کے مسائل ہیں اور اِن دونوں ممالک کے مسائل کی وجہ سے ایک فیصلہ یہ ہوا تھا کہ اگر اِس تنظیم نے چلنا ہے تو جو بڑے فیصلے ہیں وہ اکثریت رائے سے نہیں بلکہ مکمل ہم آہنگی سے ہوں گے۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ بھارت اپنا دباؤ استعمال نہ کر سکے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے کہا کہ مختلف شعبوں جیسے ماحولیاتی تبدیلی، زراعت، وبائی امراض، تعلیم وغیرہ کی سارک کی مختلف کمیٹیاں ہیں۔ اِسی طرح سارک کی انسداد بدعنوانی کے بارے میں بھی کمیٹی ہے۔ جس میں رکن ممالک کے نمائندے ہوتے ہیں جب کہ اس کی سربراہی بدلتی رہتی ہے۔

ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے بتایا کہ سارک اینٹی کرپشن فورم کی سربراہی اِس مرتبہ پاکستان کے حصے میں آئی ہے۔ اگلی بار کسی اور کے حصہ میں ہو گی۔ جو کہ کوئی بڑی بات نہیں ہے، یہ ایک معمول کی بات ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اِس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ نیب والے اُٹھائیں گے۔ نیب حکام خود ذرائع ابلاغ میں اِس معاملے کو اٹھائیں گے کہ ان کا ادارہ ایک عالمی سطح کی کمیٹی کا سربراہ بن گیا ہے۔

ان کے بقول یہ عہدہ باری باری سب کو ملتا رہتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اگلی مرتبہ یہ عہدہ بھارت کو مل جائے۔ پھر سری لنکا اس فورم کا سربراہ ہو۔ بعض اوقات اِن عہدوں کی سربراہی کی ترتیب ممالک کے ناموں کے پہلے حروف تہجی کے حساب سے چلتی ہے اور بعض اوقات یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ پہلے کون ہو گا، دوسرا کون ہو گا۔ جس کے بعد ہر کمیٹی کی چیئرمین شپ کے لیے ایک مدت ہے اور وہ بدلتی رہتی ہے۔

'پاکستان میں نیب جیسے اداروں کا ایک ہی مسئلہ ہے کہ وہ سیاست سے پاک نہیں ہوتے'

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ نیب کو جس فورم کی صدارت دی گئی ہے وہ سارک ممالک کی تنظیم کی ایک ذیلی کمیٹی ہے۔ اس کمیٹی کی صدارت مرحلہ وار ہر رکن ملک کو ملتی رہتی ہے۔

نیب کو کمیٹی کی سربراہی ملنے پر ان کا کہنا تھا کہ اُس کا اِس بات سے تعلق نہیں ہے کہ کسی ملک کی کوئی ایجنسی کیسی کارکردگی دکھا رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے احمد بلال محبوب نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر یہ بات آ گئی ہے جس پر خوش ہونا چاہیے۔

پلڈاٹ کے سربراہ سمجھتے ہیں کہ ویسے تو نیب پر تنقید ہوتی رہتی ہے لیکن پاکستان کے ایک ادارے کو عالمی سطح پر پذیرائی ملے تو خوشی کی بات ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک معمول کی کارروائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں نیب یا اس جیسے اداروں کا ایک ہی مسئلہ ہے کہ وہ سیاست سے پاک نہیں ہوتے۔ ان میں سیاسی انتقام نظر آتا ہے۔ بدقسمتی سے نیب کے اندر بھی یہ چیز موجود ہے۔

'حکومت کے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے نیب کو استعمال کیا جاتا رہا ہے'

ان کے بقول خاص طور پر جب نیب کو بنایا گیا تھا تو شروع کے ایک دو سال میں جب جنرل امجد اِس کے سربراہ تھے تو یہ تھوڑا سا محفوظ تھا۔ لیکن اُس کے بعد جیسے ہی حکومت کی سیاسی حکمت عملی تبدیل ہوئی تو جنرل پرویز مشرف کے دور میں تو نیب کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے نیب کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ق) کی حکومت بنوانے اور لوگوں کی وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے بھی نیب کو استعمال کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ نیب کے بارے میں رائے یہی ہے کہ اِسے مثبت کاموں کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔

نیب کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ کوئی ایک نظام بن جاتا کہ ایک ترتیب سے چل رہے پرانے مقدمات کو دیکھا جا رہا ہے۔ یوں اُن کیسز کو دیکھتے جاتے اور آگے بڑھتے جاتے لیکن نیب کا حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں پر توجہ زیادہ نظر آ رہی ہے۔

سارک جنوبی ایشیائی ممالک کی علاقائی تعاون کی تنظیم ہے۔ جو 1985 میں بنائی گئی تھی۔ جس کے رکن ممالک میں افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، مالدیپ، سری لنکا، پاکستان اور بھارت شامل ہیں۔

XS
SM
MD
LG