افغانستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں افغان طالبان کی مبینہ موجودگی خطے میں موجود بحران کو جاری رکھے گی۔ افغان حکومت کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے و قت میں سامنے آیا ہے جب حال ہی میں پاکستان کے دورے کے دوران پاکستان میں مقیم افغان طالبان کے ساتھ ملا بردار کی ویڈیوز منظر عام پر آئیں۔
افغان وزارت خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ویڈیوز پاکستان میں تمام طالبان رہنماؤں کی موجودگی کو ظاہر کرتی ہیں جو مبینہ طور افغانستان کی قومی خود مختاری کی واضح خلاف ورزی ہے اور یہ افغانستان میں پائیدار امن کی کوششوں کی لیے ایک چیلنج ہو گا۔
افغان حکومت نے پاکستان سے اپیل کی ہے کہ وہ باغی عناصر کو پاکستان کی سر زمیں استعمال کرنے کی جازت نہ دے جو مبینہ طور پر جنگ اور خونریزی کو جاری رکھنے پر اصرار کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں ملا برادر پاکستان میں کسی مقام پر بظاہر طالبان اراکین گروپ کے درمیان موجود ہیں، جہاں ملا بردار نے کہا کہ امن عمل کے بارے میں تمام فیصلوں کو پاکستان میں طالبان کی قیادت اور طالبان کی علما کونسل سے مشاورت کے ساتھ حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ یہ ویڈیو کب بنائی گئی ہے۔
پاکستان نے افغان ووزارت خارجہ کے طرف سے جمعرات کو دیر گئے جاری ہونے والے بیان پر تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، لیکن پاکستانی حکام قبل ازیں متعدد بار یہ واضح کر چکے ہیں پاکستان اپنی سر زمیں کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کی قطعی اجازت نہیں دیتا ہے۔
دوسری جانب افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں مقیم اپنے لوگوں سے ملا عبدالغنی بردار کی ملاقات کوئی غیر معولی بات نہیں ہے۔ ان کے بقول پاکستان میں اس وقت تقریباً 22 لاکھ افغان پناہ گزین مقیم ہیں جن میں سے بعض علیل افغان پناہ گزینوں کی عیادت کرنا اور انہیں اپنے وطن کی صورت حال کے بارے میں آگاہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اگرچہ افغان حکومت قبل ازیں یہ کہہ چکی ہے کہ افغان طالبان کے وفد کا دورہ پاکستان اور پاکستانی حکام سے ہونے والی ملاقاتیں افغان امن عمل کے لیے مفید ہوں گی، لیکن افغان امور کے تجزیہ کار اور صحافی طاہر خان کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں طالبان وفد کے دورہ پاکستان سے افغان حکومت کی جو توقعات تھیں، وہ شاید پوری نہیں ہوئیں۔ اور اسی لیے افغان حکومت نے ملا عبدالغنی کی پاکستان میں بعض طالبان سے ہونے والی ملاقاتوں پر اعتراض کیا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاید افغان حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اس دورے کے باوجود افغان امن عمل کے لیے کوئی مثبت پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے اور نہ ہی تشدد میں کمی ہوئی ہے اور نہ ہی طالبان ابھی تک جنگ بندی پر تیار نظر آتے ہیں۔ اسی لیے افغان حکومت نے طالبان رہنما ملا عبدالغنی بردار کی پاکستان میں ہونے والے بعض ملاقاتوں پر اعتراض کیا ہے۔
افغان امور کے ایک اور ماہر اور صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ افغان حکومت طالبان وفد کے حالیہ دورہ پاکستان کو سرہاتے ہوئے یہ کہہ چکی ہے کہ اس دورے سے افغان امن عمل کی کوششوں کو تقویت ملے گی اور کابل حکومت اس کے حق میں ہے۔
لیکن رحیم اللہ کہتے ہیں کہ اگر افغان حکومت طالبان نے پاکستانی حکام کے علاوہ ہونے والی ملاقاتوں پر اعتراض کیا ہے، تو یہ اس بات کی عکاسی ہے کہ شاید اب بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے افغان امن عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
رحیم اللہ کے بقول اگر افغان تنازع کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا ہے تو بات چیت اور ر ابطے ضروری ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ، افغان حکومت اور بعض دیگر ممالک بھی یہ کہتے آ رہے ہیں کہ پاکستان، طالبان سے تشدد میں کمی اور جنگ بندی کا کہے۔
رحیم اللہ کا کہنا ہے کہ اگر سب یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان افغان امن عمل میں اپنا مثبت کردار جاری رکھے تو پھر طالبان پاکستان بھی آئیں گے۔ ان کی پاکستانی حکام سے ملاقاتیں بھی ہوں اور پاکستانی عہدیدار قطر میں بھی طالبان سے ملاقات کریں گے۔
یاد رہے کہ طالبان کے ایک وفد نے ملا عبدالغنی بردار کی قیادت میں حال ہی میں پاکستان اور دورہ کیا تھا اور وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ملاقات کی تھی۔
پاکستان نے یہ کہا تھا کہ طالبان کے وفد کا اسلام آباد کا دورہ، پاکستان کی طرف سے ایک متحد، مستحکم، آزاد و خود مختار اور خوشحال افغانستان کے حصول میں سہولت کاری فراہم کرنے کی سنجیدہ کوششوں کی ایک کڑی ہے۔