اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ رواں سال کے ابتدائی نو ماہ میں افغانستان میں ہلاک و زخمی ہونے والے عام شہریوں کی تعداد میں گزشتہ برس کے ابتدائی نو مہنیوں کے مقابلے میں 30 فی صد کمی ہوئی ہے۔ البتہ بین الافغان مذاکرات شروع ہونے کے بعد تشدد میں کمی واقع نہیں ہوئی۔
اقوامِ متحدہ کے افغانستان کے لیے معاون مشن نے منگل کو جاری کی گئی رپورٹ میں تشدد کی بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
رپورٹ میں افغانستان کے تمام فریقوں پر ایک بار پھر زور دیا گیا ہے کہ عام شہریوں کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں اور فریقین جنگ کے خاتمے کے لیے بھی کام کریں۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی افغانستان کے لیے نمائندۂ خصوصی ڈیبورہ لیونز کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے ذریعے قیامِ امن میں ابھی وقت لگے گا۔ البتہ فریقین کو بات چیت کو ترجیح دیتے ہوئے عام شہریوں کو پہنچے والے سنگین نقصان کو کم کرنے کے لیے فوری اضافی اقدامات کرنا ہوں گے۔
افغانستان میں اقوامِ متحدہ کی امدادی مشن کی جاری کردہ حالیہ رپورٹ کے مطابق 2020 کے ابتدائی نو ماہ یکم جنوری سے 30 ستمبر کے دوران افغانستان میں تشدد کے مختلف واقعات میں 2117 افغان شہری ہلاک جب کہ 3822 زخمی ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق 2012 کے بعد سے رواں برس کے ابتدائی نو ماہ کے دوران تشدد کے واقعات میں ہلاک اور زخمی ہونے والے عام شہریوں کی تعداد سب سے کم ہے۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 12 ستمبر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان کے وفود کے درمیان بین الافغان مذاکرات کے آغاز سے لے کر 30 ستمبر تک متحارب فریقین کی وجہ سے سے ہلاک یا زخمی ہونے والے عام شہریوں کی تعدادمیں کوئی کمی نہیں آئی۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق رواں ماہ افغانستان کے جنوبی صوبے ہلمند میں ہونے والی لڑائی سمیت کئی دیگر علاقوں میں حملے ور فورسز کی فضائی کارروائیاں باعث تشویش ہیں۔ جن میں 400 عام افغان شہری ہلاک یا زخمی ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں برس سال ابتدائی نو ماہ کے دوران ہلاک و زخمی ہونے والوں میں 31 فی صد بچے جب کہ 13 فی صد خواتین شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں حکومت مخالف عناصر کو شہریوں کی اکثریت کی ہلاکت یا زخمی ہونے کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ طالبان کی وجہ سے ہلاک یا زخمی ہونے والوں کی تعداد میں اس عرصے کے دوران چھ گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 23 فی صد شہریوں کی ہلاکت یا زخمی ہونے کے ذمہ دار افغان سیکیورٹی فورسز ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ پر افغان حکومت کا کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن قبل ازیں افغان حکام کا یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ چند ماہ کے دوران طالبان کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
دوسری طرف طالبان ترجمان نے اقوامِ متحدہ کی رپورٹ پر ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ رپورٹ ان کے حریف کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔
طالبان ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں عام شہریوں کو پہنچے والے نقصانات میں سے 45 فی صد کا ذمہ دار طالبان کو قرار دیا گیا ہے۔ ان کے بقول ان میں وہ نقصانات بھی شامل کر دیے گئے جو کابل حکومت کے حملوں کی وجہ سے ہوئے۔
دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ طالبان کی کوشش ہے کہ شہریوں کو نقصان نہ پہنچے۔ اور اس سلسلے میں طالبان کا ایک کمشن بھی کام کر رہا ہے۔
گزشتہ ماہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان میں بین الافغان مذاکرات کے آغاز کے بعد پر تشدد واقعات پر بین الاقوامی برداری تشویش کا اظہار کرتی رہی ہے اور فریقین پر جنگ بندی پر زور دیا جاتا رہا ہے جب کہ افغان حکومت بھی طالبان سے جنگ بندی کا مطالبہ کرتی آ رہی ہے۔ لیکن طالبان اس وقت تک جنگ بندی کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ جب تک بین الافغان مذاکرات کے نیتجے میں فریقین میں کوئی معاہدہ طے نہیں پا جاتا۔