افغانستان کے حکام نے الزام لگایا ہے کہ انتیس فروری کو امریکہ طالبان معاہدے کے بعد سے طالبان نے تقریباً 800 افراد کو ہلاک یا زخمی کیا ہے۔ طالبان کے ایک ترجمان نے فوری طور پر اس کی تردید کی ہے۔
ہفتے کے روز امریکہ کے سفیر برائے افغان مصالحت، زلمے خلیل زاد نے متحارب گروپوں سے اپیل کی تھی کہ وہ امن مذاکرات کی طرف پیش رفت کریں۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ یہ امن معاہدہ افغانستان کے لیے ایک تاریخی موقع ہے۔
ہفتے ہی کے روز کابل میں قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے طالبان کی پر تشدد کارروائیوں کی تفصیل جاری کی، جس میں کہا گیا ہے کہ انتیس فروری سے بیس اپریل کے درمیان طالبان نے دو ہزار آٹھ سو سے زیادہ پر تشدد کارروائیاں کیں، جن میں سات سو نواسی شہری ہلاک یا زخمی ہوئے۔
ترجمان جاوید فیصل نے مزید کہا کہ افغان سیکورٹی فورسز نے اپنی جوابی کارروائی میں دو ہزار سات سو طالبان ہلاک کیے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ یہ ایک عمومی بیان ہے، کیوںکہ یہ کون بتا سکتا ہے کہ کب اور کہاں کتنے شہری مارے گئے۔
ان بڑھتی ہوئی پرتشدد کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے امریکہ اور اس کے اتحادی افغان لیڈروں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ معاہدے میں شامل شرائط کو پورا کرنے کے لیے آگے بڑھیں، تاکہ ملک میں امن و استحکام قائم ہو سکے۔
اس معاہدے میں قیدیوں کا تبادلہ بھی شامل ہے، جس پر عمل درآمد بے حد سست رفتار ہے۔ ابھی تک افغان حکومت نے تقریباً ساڑھے پانچ سو طالبان قیدی رہا کیے ہیں اور طالبان نے ساٹھ افغانی سیکورٹی فورس کے اہلکار رہا کیے ہیں۔
معاہدے کے تحت، افغان حکومت نے پانچ ہزار جبکہ طالبان نے ایک ہزار قیدی رہا کرنے ہیں۔ خلیل زاد نے اپنے تازہ پیغام میں کہا ہے کہ دونوں فریق قیدیوں کے تبادلے کے عمل کو تیز کریں۔ انہوں نے طالبان سے کہا کہ وہ تشدد میں کمی کریں۔
افغان حکومت نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ قیدیوں کی رہائی سے پہلے وہ جنگ بندی کا اعلان کریں، جبکہ طالبان نے ایسا کرنے سے انکار کیا ہے۔
طالبان کا کہنا کے معاہدے پر مکمل طور سے عمل کیا جائے۔ طالبان ترجمان کا کہنا ہے کہ تمام قیدیوں کی رہائی کے بغیر امن مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان معاہدے تمام شرائط پوری کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔
ترجمان نے یہ بھی کہا کہ ہم اپنے علاقے کے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں، اور ہم اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
دوسری طرف، افغانستان کے سیاسی حالات بھی تصفیہ طلب ہیں۔ حالیہ صدارتی انتخابات کے نتائج کو دوسرے فریق نے قبول نہیں کیا۔ یہ سیاسی بے یقینی بھی امن مذاکرات کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ خلیل زاد نیٹو کی اس اپیل کی حمایت کرتے ہیں کہ غنی حکومت جلد از جلد اپنے سیاسی خلفشار کو ختم کرے۔