افغان طالبان نے کابل حکومت پر الزام لگایا ہے کہ امن کی راہ ميں تمام تر رکاوٹيں افغان حکومت کی جانب سے ہيں جب کہ امريکہ بھی اپنے کیے ہوئے وعدے پورے کرنے ميں ناکام رہا ہے۔
طالبان کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب حالیہ چند روز کے دوران افغانستان ميں طالبان اور حکومتی فورسز کے درميان جھڑپوں ميں کئی افغان اہلکار مارے گئے ہیں۔
بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان کے قطر ميں قائم سياسی دفتر کے ترجمان سہيل شاہين نے کہا کہ فروری کے آخر ميں امريکہ اور طالبان کے درميان طے پانے والے امن معاہدے کے تحت بين الافغان مذاکرات شروع ہونے تھے اور اس سے پہلے افغان حکومت اور طالبان کے درميان قيديوں کا تبادلہ ہونا تھا۔ ليکن ان کے بقول کابل حکومت طالبان کے قيدی رہا نہیں کر رہی۔
سہيل شاہين نے واضح کيا کہ طالبان آگے بڑھنے کے لیے سنجيدہ ہيں ليکن دوسرے فريق کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
طالبان ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہمارے قيدی امن معاہدے کے تحت 10 مارچ سے پہلے رہا کردیے جاتے تو اب تک بين الافغان مذاکرات شروع بھی ہو چکے ہوتے۔
'افغان حکومت 433 طالبان قیدی رہا کر چکی ہے'
افغان طالبان اور امریکہ میں ہونے والے امن معاہدے کے تحت افغان حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار تک قيدی رہا کرنے ہیں۔ جب کہ طالبان نے بھی افغان حکومت کے 1000 قيديوں کو رہا کرنا ہے۔ ليکن اب تک صرف چند سو قيديوں کی رہائی ہی عمل ميں آئی ہے۔
افغانستان کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جاويد فيصل کے مطابق طالبان قيديوں کی رہائی کا سلسلہ جاری ہے اور آئندہ چند ہفتوں کے دوران 1500 قيدی رہا کر ديے جائيں گے۔
ان کے مطابق افغان حکومت اب تک 433 طالبان قيدی رہا کرچکی ہے جس کے مقابلے ميں طالبان نے اب تک افغان حکومت کے صرف 40 قيدی رہا کیے ہيں۔
اطلاعات کے مطابق افغانستان نے طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں کے پيشِ نظر نہ صرف عالمی طاقتوں بلکہ پاکستان سے بھی مدد کی اپيل کی ہے۔
اس سلسلے ميں رواں ہفتے افغانستان کے قائم مقام وزيرِ خارجہ حنيف اتمر نے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قريشی سے ٹيلی فون پر رابطہ بھی کیا تھا۔
دونوں رہنماؤں نے اپنی گفتگو کے دوران افغانستان ميں قيامِ امن، بين الافغان مذاکرات اور قيديوں کی رہائی کے معاملے پر مل کر کام کرنے پر اتفاق کيا تھا۔
دوسری جانب افغان وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا ہے کہ طالبان نے حالیہ ہفتوں میں حملوں میں اضافہ کیا ہے۔
وزارت دفاع کے نائب ترجمان فواد امان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران طالبان نے 10 صوبوں میں سیکیورٹی فورسز کی املاک کو نشانہ بنایا ہے۔
'طالبان حملوں میں کمی لائے ہیں'
طالبان ترجمان سہیل شاہین کے مطابق ايک جانب افغان حکومت ان کے قيدی رہا نہيں کر رہی جب کہ دوسری جانب حملوں ميں کمی پر زور دے رہی ہے۔ ان کے بقول يہ دونوں باتيں متضاد ہيں۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغان حکام خود يہ دعویٰ کر رہے ہيں کہ ان پر روزانہ کی بنياد پر تقريباً 10 حملے ہو رہے ہيں جب کہ ہمارے پاس موجود اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال انہی ايام ميں طالبان 150 سے 200 تک حملے کر رہے تھے۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ اعداد و شمار کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو طالبان تو اپنے حملوں ميں نماياں کمی کر چکے ہیں ليکن کابل انتظاميہ افغانستان ميں ديرپا امن کے سلسلے ميں ليت و لعل سے کام لے رہی ہے۔
سہیل شاہین کے مطابق افغان حکومت عالمی برادری کو گمراہ کر رہی ہے۔
انہوں نے ايک بار پھر تمام قيديوں کی غير مشروط رہائی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ قیدیوں کی رہائی کے بعد ہی بين الافغان مذاکرات شروع کیے جائيں گے۔
بین الافغان مذاکرات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں جنگ بندی کے علاوہ افغانستان ميں مستقبل کے سياسی ڈھانچے پر بھی بات چیت ہونی چاہیے تاکہ افغانستان کے مسئلے کا سياسی حل نکالا جا سکے۔
'اشرف غنی کی کوشش ہوگی کہ اقتدار برقرار رہے'
سابق پاکستانی سفارت کار اور افغان امور کے ماہر رستم شاہ مہمند کا کہنا ہے کہ افغانستان میں اس وقت مکمل بے چینی کی حالت ہے اور معاملات آگے نہیں بڑھ رہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے رستم شاہ مہمند کا کہنا تھا کہ امریکہ اور طالبان قریب ہو رہے ہیں کیوں کہ انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ اشرف غنی کی حکومت نہ امن لا سکتی ہے اور نہ ہی کرپشن کا خاتمہ کر سکتی ہے۔
اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان تنازع کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کی آپس کی لڑائی صرف اقتدار کے لیے ہے۔
رستم شاہ مہمند کے مطابق یہی حقیقت خطے کی دوسری طاقتیں یعنی روس اور چین بھی سمجھ گئی ہیں کہ شدت پسند گروہ داعش کے خلاف صرف طالبان ہی مؤثر طاقت ثابت ہو سکتے ہیں۔
روس اور چین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کا جھکاؤ بھی طالبان کی جانب ہو رہا ہے۔
سابق سفارت کار کے مطابق اشرف غنی کی کوشش یہی ہوگی کہ معاملات ایسے ہی رہیں تاکہ ان کا اقتدار برقرار رہے۔
'افغان حکومت کی فضائیہ اور فوج اب کافی مضبوط ہو چکی ہے'
افغان صحافی اور امن عمل پر نظر رکھنے والے سمیع یوسف زئی کے خیال میں افغان حکومت نے طالبان قیدیوں کی رہائی میں رخنہ ڈالنا شروع کیا تو طالبان نے بھی حملوں میں اضافہ کردیا ہے۔
سمیع یوسف زئی کا کہنا تھا کہ طالبان اپنے حملوں میں اضافے کا دفاع بھی کر رہے ہیں کیوں کہ افغان حکومت معاہدے پر عمل نہیں کر رہی۔
ان کے بقول افغان حکومت کی فضائیہ اور فوج اب کافی مضبوط ہو چکی ہے اور جب یہ فوج طالبان پر حملے کرتی ہے تو طالبان کو لگتا ہے کہ ان پر امریکی فوج نے حملہ کیا ہے۔ ان کے بقول افغانستان میں امریکی ڈرون حملے تو مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں۔
سمیع یوسف زئی کے مطابق امن معاہدے کا اثر بتدریج زائل ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے اور امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد امن معاہدے پر عمل در آمد کرانے میں ناکام رہے ہیں۔