افغانستان میں سیکیورٹی فورسز نے جنوبی شہر قندھار میں داعش کے ایک اہم کمانڈر عبداللہ اورکزئی عرف اسلم فاروقی کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
اسلم فاروقی شام اور عراق کی دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیم داعش کے خراسان کے سربراہ ہیں۔
شدت پسند تنظیم افغانستان اور دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کو خراسان قرار دیتی ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق افغانستان کے خفیہ ادارے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) نے شدت پسند کمانڈر اسلم فاروقی کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔
داعش کے اس کمانڈر کی عمر 26 سال بتائی جا رہی ہے۔ جس کی گرفتاری قندھار شہر میں ہونے والے کارروائی کے نتیجے میں عمل میں آئی ہے۔
قندھار کو افغانستان میں تحریک طالبان (امارت اسلامی افغانستان) کا مرکز اور مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
اسلم فاروقی افغانستان میں داعش کے پہلے ایسے اعلیٰ سطح کے عہدیدار ہیں جنہیں زندہ گرفتار کیا گیا ہے۔ اس سے قبل داعش کے ملا عبد الرؤف خدام، حافظ محمد سعید، عبدالحسیب لوگری اور ابو سعید باجوڑی مبینہ طور پر امریکی ڈرون طیاروں کے حملوں میں ہلاک ہوئے تھے۔
امریکہ میں گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد امریکی قید میں رہنے والے سابق افغان جہادی کمانڈر عبد الرحیم مسلم دوست بھی داعش کے خراسان کے قائم مقام سربراہ رہ چکے ہیں۔
عبدالحسیب لوگری اور عبدالرحیم مسلم دوست کے علاؤہ داعش خراسان کے دیگر تمام سربراہ یا اہم کمانڈروں کا تعلق پاکستان ہی سے بتایا جاتا ہے۔
گزشتہ برس کے آخر تک داعش کے تمام تر فیصلے اور حکمت عملی 40 رکنی کمیٹی کے ذریعے کیے جاتے تھے۔ اس کمیٹی میں 22 ارکان کا تعلق پاکستان، 8 کا افغانستان جب کہ دیگر کا تعلق وسط ایشیائی ممالک اور ہندوستان سے بتایا جاتا تھا۔
پچھلے سال نومبر اور دسمبر میں داعش سے منسلک جنگجووں کے خلاف پاکستان کی سرحد سے منسلک صوبوں ننگرہار اور کنڑ میں کارروائیاں کرکے تین ہزار سے زائد جنگجوؤں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
ان کارروائیوں کے نتیجے میں تقریباً 1300 خواتین اور بچوں کو بھی حراست میں لینے کی رپورٹس سامنے آئی تھیں۔ ان خواتین اور بچوں میں اکثریت کا تعلق پاکستان کے قبائلی ضلع اورکزئی سے تھا۔ بعد ازاں افغان حکومت نے انہیں رہا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
افغان حکام نے خواتین اور بچوں کو پاکستان کے ضلع خیبر کے قبائلی رہنماؤں پر مشتمل جرگے کے ذریعے رشتے داروں کے حوالے کیا تھا۔
افغان سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں گرفتار ہونے والے اسلم فاروقی کا تعلق بھی قبائلی ضلع اورکزئی سے ہے۔
اسلم فاروقی گزشتہ برس شدت پسند تنظیم داعش خراسان کے سربراہ بنے تھے۔ وہ اس چالیس رکنی کمیٹی کے بھی سربراہ تھے جو داعش کے تمام معاملات کے فیصلے کرتی ہے۔
افغان صحافی سمیع یوسف زئی کا کہنا ہے کہ اسلم فاروقی انتہائی خاموش رہے ہیں اور ان کے دور میں داعش کافی نشیب و فراز کے مراحل سے گزری ہے۔
ان کے بقول اس دوران داعش اور تحریک طالبان افغانستان کے درمیان جھڑپیں زیادہ ہوئی ہیں جب کہ داعش کے خلاف امریکی اور افغان سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں بھی تیزی آئی ہے۔
افغان صحافی افغانستان کے خفیہ ادارے کے اسلم فاروقی کی قندھار سے گرفتاری کے دعوے پر بھی حیران ہیں کیونکہ قندھار افغان طالبان کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔
افغانستان کی پارلیمان کے ممبران آغا رضائی اور جواد صافی نے اسلم فاروقی کی گرفتاری کو افغان سیکیورٹی فورسز کی اہم کامیابی قرار دیا ہے۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو ہونے معاہدے کے بعد افغانستان کے دارالحکومت کابل میں کئی حملے ہوئے ہیں۔ جن میں شیعہ فرقے کے جہادی رہنما پروفیسر عبدالعلی مزاری کی برسی کی تقریب اور سکھوں کے گردوارے پر ہلاکت خیز حملے شامل ہیں۔ ان کارروائیوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
ان واقعات کے بعد افغان سیکیورٹی فورسز نے امریکی فوج کی معاونت سے داعش کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔