افغانستان کے دارالحکومت کابل میں فوجی اکیڈمی پر خود کش حملے میں پانچ افراد ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق منگل کو کیا گیا خود کش دھماکہ کئی ماہ بعد کابل میں ہونے والا کوئی بڑا حملہ ہے۔
دھماکے کی ذمہ داری فوری طور پر طالبان یا کسی اور عسکری گروپ نے قبول نہیں کی۔
خیال رہے کہ افغانستان کا دارالحکومت گزشتہ تین ماہ سے انتہائی پرسکون رہا ہے۔
افغان وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا ہے کہ دھماکے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
وزارت داخلہ کے ترجمان نصرت رحیمی کا کہنا ہے کہ دھماکے میں چھ افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں دو عام شہری جب کہ چار سیکیورٹی اہلکار شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ خود کش حملہ آور نے صبح سات بجے اکیڈمی کے قریب دھماکہ کیا۔
نصرت رحیمی نے خودکش حملے میں 12 افراد کے زخمی ہونے کی بھی تصدیق کی۔ جن میں سے پانچ عام شہری جب کہ سات سیکیورٹی اہلکار تھے۔
'اے ایف پی' کے مطابق عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ حملہ آور نے مارشل فہیم ملٹری اکیڈمی کو خودکش حملے میں نشانہ بنایا۔ جہاں پر ملک بھر میں خدمات انجام دینے والے اہلکاروں کو تربیت دی جاتی ہے۔
اکیڈمی کے قریب رہنے والے افراد نے حملے کے حوالے سے بتایا کہ دھماکہ انتہائی زور دار تھا۔ اس سے اکیڈمی کے قریب واقع آبادی کے کئی گھر متاثر ہوئے جبکہ دھماکے شدت پورے علاقے میں محسوس کی گئی۔
علاقہ مکینوں کا کہنا تھا کہ دھماکے کے بعد فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئی۔ تاہم اس کی تصدیق حکام نے نہیں کی۔
سیکیورٹی حکام نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط بتایا کہ حملہ آور پیدل آیا تھا۔ اس نے اکیڈمی میں داخل ہونے والی ایک گاڑی کے قریب پہنچ کر دھماکہ کیا۔
حالیہ مہینوں میں طالبان نے افغانستان کے شہروں میں حملے کم کر دیے تھے تاکہ وہ امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات کو بامعنی بنا سکیں تاہم طالبان کے جنگجو صوبوں کے دیہاتی یا پہاڑی علاقوں میں افغان فورسز اور امریکی فوج پر حملے کرتے رہے ہیں۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں آخری بار بڑا حملہ نومبر 2019 میں ہوا تھا۔ اس کار بم حملے میں 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حملے میں ایک غیر ملکیوں کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں سوار چار غیر ملکی بھی مارے گئے تھے۔
خیال رہے کہ منگل کو جس ملٹری اکیڈمی کو نشانہ بنایا گیا ہے اس پر پہلے بھی متعدد بار حملے ہو چکے ہیں۔ گزشتہ برس مئی میں اس پر کیے گئے ایک حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے بھی قبول کی تھی۔
یہ دھماکہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ اور افغان طالبان ممکنہ امن معاہدے پر بات چیت کر رہے ہیں۔ کس کے تحت افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا ہو سکے اور اس کے بعد کی صورت حال پہلے سے طے کی جا سکے۔
امریکہ اور طالبان میں گزشتہ کئی ماہ سے مذاکرات جاری ہیں۔ گزشتہ برس ستمبر میں فریقین نے ممکنہ معاہدے کے قریب پہنچنے کا اعلان کیا تھا تاہم امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ مذاکرات یہ کہہ کر ختم کر دیے تھے کہ طالبان کو پہلے حملے اور پر تشدد کارروائیاں ختم کرنا ہوں گی۔ خیال رہے کہ انہوں نے یہ اعلان کابل میں طالبان کے ایک حملے میں امریکی فوجی کے ہلاکت کے بعد سامنے آیا تھا۔
بعد ازاں یہ مذاکراتی عمل دسمبر 2019 میں بحال ہوا تاہم میں بگرام میں امریکہ کے زیر انتظام بیس پر حملے کے بعد ایک پھر یہ عمل رک گیا۔
گزشتہ دنوں امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے طالبان رہنماؤں سے ایک بات پھر قطر میں ملاقات کی تھی۔ جس میں امن معاہدے کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔
حالیہ ہفتوں میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق 2019 کے آخر میں تین ماہ میں افغانستان میں حملوں کی تعداد ریکارڈ سطح تک پہنچی اور گزشتہ ایک دہائی میں طالبان اور دیگر عسکری گروہوں نے سب سے زیادہ حملے اس سہ ماہی میں کیے۔