پاکستان میں چینی اور گندم بحران کے حوالے سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے تحقیقاتی رپورٹ وزیراعظم عمران خان کو پیش کر دی ہے۔ جس میں سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں میں جہانگیر ترین اور وزیر فوڈ سیکیورٹی خسرو بختیار کے قریبی عزیز کے نام سامنے آئے ہیں۔
ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ میں کئی نامور سیاسی خاندانوں کے نام شامل ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چینی کے بحران میں سب سے زیادہ فائدہ حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما جہانگیر ترین نے اٹھایا۔ انہوں نے سبسڈی کی مدد میں 56 کروڑ روپے کمائے جب کہ وفاقی وزیر خسرو بختیار کے قریبی عزیز نے آٹا و چینی بحران سے 45 کروڑ روپے کمائے۔
رپورٹ کے مطابق جنوبی پنجاب کی بڑی کاروباری شخصیت چوہدری منیر رحیم یار خان ملز، اتحاد ملز ٹو اسٹار انڈسٹری گروپ میں حصہ دار ہیں۔ اس بحران میں مسلم لیگ (ن) کے سابق ایم پی اے غلام دستگیر لک کی ملز کو 14 کروڑ کا فائدہ پہنچا۔
'چینی برآمد کرنے کا فیصلہ درست نہیں تھا'
ایف آئی اے کی پیش کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چینی کی برآمد سے ملک میں قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ چینی برآمد کرنے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ چینی برآمد کرنے والوں نے دو طرح سے پیسے بنائے۔ چینی پر سبسڈی کی مد میں رقم بھی وصول کی اور قیمت بڑھنے کا بھی فائدہ اٹھایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق شوگر ایڈوائزری بورڈ وقت پر فیصلے کرنے میں ناکام رہا۔ دسمبر 2018 سے جون 2019 تک چینی کی قیمت میں 16 روپے فی کلو اضافہ ہوا۔ اس عرصے کے دوران کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ ذخائر اور ضرورت تقریباً برابر ہیں۔ تھوڑا سا فرق ذخیرہ اندوزوں کو قیمتیں بڑھانے کا موقع فراہم کرے گا۔ حکومت اس معمولی فرق بھی ختم کرنے کے لیے چینی درآمد کرنے کی اجازت دے۔
'پاسکو گندم کی خریداری نہیں کرسکی'
گندم کے حوالے سے پیش کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاسکو مجموعی ضرورت کی 40 فیصد گندم کی خریداری نہیں کرسکی اور وزارت خوراک اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کو مئی اور جون 2019 میں بتاتی رہی کہ پاسکو نے مقررہ ہدف کو پورا کرلیا۔
رپورٹ کے مطابق صرف یہی نہیں وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ جو پاسکو کی نگرانی کرتی ہے۔ اس ادارے نے حکومت کو یہ سفارش بھی کی کہ گندم کے ذخیرے کی صورت حال مناسب ہے اور برآمدات کی اجازت دی جانی چاہیے۔
پنجاب میں خریداری کی کوشش میں تاخیر
پنجاب کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ محکمہ خوراک میں زیادہ ٹرن اوور کی وجہ سے مزید خریداری کی کوششوں کو انتہائی محدود کردیا گیا جس میں ایک سال کے دوران 4 سیکریٹریز اور تمام ضلعی فوڈ کنٹرولرز کے 3 مرتبہ تبادلے کیے گئے۔ اس کے نتیجے میں خریداری کی کوشش 20 دن تاخیر سے شروع ہوئی اور محکمہ خوراک ’فلور ملز پر قابو پانے میں ناکام رہا جس نے منافع بخش مہم کو تقویت بخشی کیونکہ انہوں نے محسوس کیا تھا کہ حکومت کی گندم کی طلب اور رسد کے لیے تیاری نہیں ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق گندم کی چوری میں اضافہ ہوا جب کہ نجی اور سرکاری سطح پر بغیر کسی حساب کتاب کے گندم کی اسٹاک ہونے لگی اور حکومت گندم کی فراہمی پر اپنا کنٹرول کھو بیٹھی۔
رپورٹ میں سابق سیکریٹری برائے حکومت پنجاب نسیم صادق اور سابق ڈائریکٹر فوڈ ڈاکٹر ظفر اقبال کو ان سنگین کوتاہیوں کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔
صوبائی وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری کا بھی حوالہ دیا گیا جنہوں نے محکمہ خوراک میں دیرینہ مسائل سے نمٹنے کے لیے کوئی اصلاحاتی ایجنڈا وضع نہیں کیا۔
سندھ میں حکام وضاحت دینے میں ناکام
سندھ کےحوالے سے ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ صوبائی حکام اس بارے میں کوئی وضاحت پیش نہیں کرسکی کہ انہوں نے خریداری کا فیصلہ کیوں نہیں کیا؟
رپورٹ کے مطابق حکومت سندھ نے 8 لاکھ ٹن گندم کے ذخیرے کا دعویٰ کیا تھا لیکن بڑے پیمانے پر چوری کی گئی۔ اگست 2019 کے شروع میں گندم کی قیمتوں میں اضافہ شروع ہوا تو محکمہ خوراک سندھ مارکیٹ میں مداخلت کرنے میں ناکام رہا۔
خیبرپختونخوا میں ذمہ دار صوبائی وزیر قرار
خیبرپختونخوا کے حوالے سے بتایا گیا کہ صوبہ میں گندم خریداری ہدف پورے نہ کرنے کے ذمہ دار وزیر قلندر لودھی ہیں۔
سیکریٹری خوراک کے پی اکبر خان اور ڈائریکٹر خوراک سادات حسین بھی ذمہ دار قرار دیے گئے ہیں۔
جہانگیر ترین اور مونس الہی کا ردعمل
دوسری جانب جہانگیر ترین نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق میں نے 12 فی صد چینی ایکسپورٹ کی جب کہ میرا مارکیٹ شیئر 20 فی صد ہے۔ رپورٹ میں واضح ہے کہ میں نے اپنے حصے سے بھی کم چینی ایکسپورٹ کی۔
جہانگیر ترین نے مزید کہا کہ میری ملز کو ملنے والی تین ارب روپے سبسڈی میں سے ڈھائی ارب روپے تب ملے جب حکومت مسلم لیگ (ن) کی تھی اور میں اپوزیشن میں تھا۔
پاکستان مسلم لیگ (ق) کے مونس الٰہی نے تحقیقاتی رپورٹ کا خیر مقدم کیا ہے اور اپنا نام سامنے آنے کے حوالے سے وضاحت کی ہے کہ ان کا رحیم خار شوگر مل کی انتظامیہ سے کوئی تعلق ہیں۔
ان کے بقول صرف بالواسطہ شیئرز ہیں۔ اس شوگر مل کا قومی برآمدات میں 3.14 فی صد حصہ ہے۔ امید ہے لوگ حقائق کو ذمہ داری سے پیش کریں گے۔
وزیراعظم عمران خان ردعمل
ایف آئی اے کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے ٹوئٹس میں کہا ہے کہ گندم چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف تفصیلی رپورٹ آنے پر کارروائی ہوگی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وعدے کے مطابق گندم اور چینی کی قیمتوں میں اچانک اضافے کی تحقیقاتی رپورٹ بغیر ردوبدل سامنے لے آئے۔
ان کے بقول ایسی رپورٹ عوامی کرنے کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی جب کہ سابقہ حکومتوں میں اپنے مفاد اور مصلحتوں کے باعث ایسی رپورٹس جاری کرنے کی اخلاقی جرات نہیں تھی۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اعلیٰ اختیاراتی کمیشن سے تفصیلی فرانزک رپورٹ کا انتظار کر رہا ہوں۔
ان کے مطابق کمیشن کی رپورٹ 25 اپریل کو آئے گی جس کے بعد گندم چینی بحران کے ذمہ دار افراد کےخلاف کارروائی ہوگی۔ رپورٹس آنے کے بعد کوئی بااثر لابی عوام کا پیسہ نہیں کھا سکے گی۔
اپوزیشن ردعمل
قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ شہباز شریف نے گندم چینی بحران کی رپورٹ کو وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کے خلاف فرد جرم قرار دیا ہے۔
ایک بیان میں شہباز شریف نے کہا کہ ایف آئی اے کی رپورٹ سنگین انکشاف ہے جس کی روشنی میں بحران میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
ان کے بقول یہ رپورٹ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف فرد جرم ہے۔ دیکھتے ہیں کہ وزیراعظم جو اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے چیئرمین ہیں۔ اپنے اور وزیراعلی کے خلاف اس بڑے پیمانے پر ہونے والی کرپشن اور اقربا پروری پر کیا سزا مقرر کرتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سیکریٹری جنرل نیئر حسین بخاری نے ایک بیان میں کہا کہ رپورٹ نے وزیرِاعظم کی گڈ گورننس کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔
سیکریٹری جنرل پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں کو چینی کے بحران کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی رپورٹ نے وزیرِ اعظم عمران خان کی اے ٹی ایم مشینوں کو چینی کے بحران کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا تھا کہ کسی چور کو نہیں چھوڑوں گا۔ اب یہ وعدہ پورا کرنے کا ان کے لیے سنہری موقع ہے۔
چینی گندم بحران کیا تھا؟
رواں سال جنوری میں ملک میں اچانک گندم کی کمی کے باعث بے چینی کی لہر دوڑ گئی تھی جب کہ حکومت کا دعویٰ تھا کہ ملک بھر میں گندم اور چینی کے وافر ذخائر موجود ہیں۔
اس تمام صورت حال کے بعد ملک بھر میں آٹا 45 روپے فی کلو سے ایک دم 70 روپے فی کلو تک پہنچ گیا۔ قیمت میں اس قدر اضافہ کے باوجود بڑے اسٹاکسٹ نے گندم ذخیرہ کر لی جس کی وجہ سے عوام سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوگئے۔
گندم کے ساتھ ساتھ چینی بھی مارکیٹ سے غائب ہونا شروع ہوگئی اور 52 روپے کلو ملنے والی چینی کی قیمت 75 سے 80 روپے فی کلو ہوگئی۔
اس تمام بحران میں جہانگیر ترین اور بعض حکومتی شخصیات پر کرپشن کے الزامات عائد کیے گئے جس پر وزیراعظم عمران خان نے ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
ایف آئی اے کی چھ رکنی ٹیم نے ڈی جی واجد ضیا کی سربراہی میں اس تمام معاملے کی تحقیقات کرنے کے بعد اپنی رپورٹ پیش کردی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے چینی بحران کے ذمے داروں کو سزا دینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی سفارش پر انکوائری کمیشن قائم کر دیا ہے۔
یہ کمیشن انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت قائم کیا گیا ہے اور یہ پہلے ہی اپنا کام شروع کر چکا ہے۔
انکوائری کمیشن کی 9 ٹیمیں بحران سے فائدہ اٹھانے والی شوگر ملز کا فرانزک آڈٹ کر رہی ہیں ان میں جہانگیر ترین کی شوگر ملز بھی شامل ہیں۔
کمیشن اپنا کام 40 دن میں مکمل کرے گا اور وزیر اعظم کے اعلان کے مطابق 25 اپریل تک تحقیقات مکمل کرلی جائیں گی جس کے بعد ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔