رسائی کے لنکس

افغان امن مذاکرات کا اگلا مرحلہ پانچ جنوری سے دوحہ میں شروع ہو گا


دوحہ میں افغان امن مذاکرات میں حصہ لینے والے طالبان وفد کے ارکان، جنہوں نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے ملاقات کی۔ 21 نومبر 2020
دوحہ میں افغان امن مذاکرات میں حصہ لینے والے طالبان وفد کے ارکان، جنہوں نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے ملاقات کی۔ 21 نومبر 2020

افغانستان میں قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے ترجمان فریدون خوازون نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث افغان امن مذاکرات کا دوسرا دور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منعقد ہو گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ترجمان فریدون کا کہنا تھا کہ متعدد ممالک نے امن بات چیت کی میزبانی کی پیشکش کی تھی تاہم ان کے بقول یہ بات چیت دوحہ میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ترجمان کے مطابق قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کی لیڈرشپ کمیٹی نے افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم کو یہ اختیار دے دیا ہے کہ وہ ایجنڈے میں شمولیت کیلئے طالبان کی طرف سے پیش کردہ نکات پر طالبان ٹیم کے ساتھ بات چیت کرے۔

اتوار کو قومی مفاہمت کی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے اتوار کو صدر غنی سے ملاقات کی جس میں بین الافغان مذاکرات کے آئندہ دور کے مقام کے بارے میں تبادلہ خیال کیا، جس کے بعد افغان صدر کے دفتر نے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ صدر غنی نے اس موقع پر افغان حکومت کی طرف سے بات چیت کے دوسرے مرحلے کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

جب کہ اطلاعات کے مطابق افغان صدر اشرف غنی کے ایک ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ابتدائی بات چیت کیلئے دوحہ کا انتخاب اس لئے کیا گیا ہے تاکہ امن مذاکرات مزید تاخیر کا شکار نہ ہوں۔

دوسری جانب افغانستان میں امن کے امور سے متعلق وزارت کی ترجمان ناجیہ انوری کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم اس وقت افغانستان کے اندر سیاست دانوں اور سوسائٹی کے سرکردہ رہنماؤں سمیت مختلف فریقوں سے صلاح مشورے کر رہی ہے۔

افٖغان صدر اشرف غنی، فائل فوٹو
افٖغان صدر اشرف غنی، فائل فوٹو

یاد رہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے مذاکراتی ٹیموں کے درمیان رواں سال 12 ستمبر کو بین الافغان مذاکرات شروع ہوئے تھے جو کئی ہفتوں تک جاری رہے اور فریقین نے بات چیت کا ایجنڈا طے کرنے کے بعد 14 دسمبر کو بات چیت میں تین ہفتے کے وقفے کا اعلان کیا تھا۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ پانچ جنوری سے بات چیت کا آئندہ دور افغانستان میں ہونا چاہیے۔ صدر غنی نے اس کے ساتھ طالبان کو یہ بھی پیش کش کی تھی کہ افغان حکومت طالبان سے افغانستان کے کسی بھی علاقے میں ان سے مذاکرات کر سکتی ہے۔

افغان امور کے تجزیہ کار رحیم للہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ یہ پہلے ہی سے فریقین کے درمیان طے تھا کہ بین الاٖفغان مذاکرات کسی غیر جانبدار مقام پر ہوں گے۔

رحیم اللہ کے بقول افغانستان کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر بین الافغان مذاکرات کے آئندہ دورہ کا انعقاد ملک کے اندر شاید ممکن نہیں تھا۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں پیش رفت کے بعد اگر فریقین معاہدہ طے پانے کے قریب پہنچ جائیں تو پھر شاید بات چیت کا آخری دور افغانستان کے اندر ہو سکتا ہے۔

لیکن دوسری جانب افغانستان میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور باہمی اعتماد کے فقدان کے باعث بھی افغان حکومت اور طالبان مذاکراتی ٹیموں کا افغانستان کے اندر بات چیت کرنا ممکن نہیں ہے۔

افٖغان امن کونسل کے سربرہ عبداللہ عبداللہ اسلام آباد میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ۔ ستمبر 2020
افٖغان امن کونسل کے سربرہ عبداللہ عبداللہ اسلام آباد میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ۔ ستمبر 2020

ادھر پاکستان کے دفتر خارجہ نے افغانستان میں قیام امن سے متعلق مکمل تعاون فراہم کرنے کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ محض ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے کی بجائے دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے مشترکہ کوششوں پر توجہ مرکوز کی جانی چاہئیے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان امن کے لیے پاکستان کے مثبت کردار کو سراہا گیا ہے۔ تاہم بیان میں افغانستان کے بعض حلقوں کی جانب سے پاکستان پر تنقید جاری رکھنے پر تشویش کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ حال ہی میں افغان وزارت خارجہ اور نائب صدر امراللہ صالح کی طرف سے طالبان کے نائب سربراہ ملا عبدالغنی برادر کی طرف سے دورہ پاکستان کے دوران طالبان عسکریت پسندوں سے ملاقات سے متعلق منظر عام پر آنے والی بعض وڈیوز پر تنقید کی گئی تھی

افغان وزارت خارجہ نے پاکستان سے اپیل کی کہ وہ باغی عناصر کو اپنی سر زمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دیے جو مبینہ طور پر جنگ اور خونریزی کو جاری رکھنے پر اصرار کرتے ہیں۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے افغانستان میں پائیدار امن و استحکام کے لیے اپنے عزم اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان امن عمل میں پاکستان کی کوششوں کو افغان سوسائٹی اور بین الاقوامی برداری کی طرف سے تسلیم کیا جاتا ہے۔

دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان رواں سال افغانستان میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتا آ رہا ہے اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی متعدد بار تشدد میں کمی اور جنگ بندی پر زور دیا ہے۔

دفتر خارجہ نے افغانستان کے بعض سرکاری اور غیر سرکاری حلقوں کے مبینہ منفی بیانات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ،’’ہم اس بات کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ کھلے عام الزام تراشی نہ صرف افغٖان امن عمل بلکہ باہمی تعاون کے فروغ کی مشترکہ کوششوں کے لیے باعث نقصان ہو گی۔‘‘

پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے پاکستان تواتر سے باہمی طور پر طے پانے اصول پر زور دیتا رہے گا کہ سیکیورٹی اور انٹیلی جنس معاملات کو متعلقہ دو طرفہ فورمز اور چینلز کے ذریعے حل ہونا چاہیے۔ وزارت خارجہ کے مطابق افغانستان، پاکستان ایکشن پلان کے تحت اس طرح کے معاملات کے لیے ادارتی فورمز موجود ہیں۔

پاکستان کی وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ بین الافغان مذاکرات کا نازک مرحلہ شروع ہونا والا ہے جب 5 جنوری 2021 کو فریقین افغانستان کے تنازع کے مستقل سیاسی تصفیے کے لیے اہم معاملات پر توجہ مرکوز کریں گے، اس نازک مرحلے کے دوران فریقین کو” الزام تراشی“ سے گریز کرتے ہوئے افغانستان میں پائیدار امن و استحکام کے لیےحقیقت پسندی اور دانش پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

XS
SM
MD
LG