مصر میں جنم لینے والی حالیہ بے چینی کے اثرات اسرائیل سمیت پورے مشرق وسطیٰ میں محسوس کیے جارہے ہیں۔ اور ماہرین کا کہناہے کہ مصر میں حکومت کی تبدیلی اسرائیل کے لیے مسائل کھڑے کرسکتی ہے۔
اسرائیل کو مصر کی صورت حال پر گہری تشویش ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والا امن معاہدہ گذشتہ 30 برس سے صدر حسنی مبارک کے باعث ہی موثر چلاآرہاہے۔ اسرائیل اس معاہدے کو اسٹرٹیجک اثاثہ سمجھتا ہے اور اسے خطرہ ہے کہ مصر میں حکومت کی تبدیلی سے امن معاہدہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
اسرائیلی تجزیہ کار یونی بن مناشم کا کہناہے کہ حزب اختلاف جماعتوں یا مسلم بردار ہڈ تنظیم کی زیر قیادت حکومت اسرائیل کے خلاف سخت رویہ اختیار کرسکتی ہے۔
ان کا کہناہے کہ وہ ایک دشمن حکومت ثابت ہوسکتی ہے جو اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کا احترام نہیں کرے گی اور اسے منسوخ یاختم کردے گی اور اسرائیل اور مصر محاذ آرائی کی طرف لوٹ جائیں گے۔
ایسی صورت حال اسرائیل کے لیے دفاعی نوعیت کی پیچیدگیاں پیدا کرسکتی ہے کیونکہ اس کی دو سرحدوں پر پہلے ہی سے محاذ آرائی پر آمادہ عناصر موجود ہیں، یعنی لبنان میں حزب اللہ اور غزہ میں حماس۔
اور بن مناشم کا خیال ہے کہ اس سلسلے کا اگلا ملک پڑوس میں واقع اردن ہوسکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ مصر کی بے چینی کے دوہرے اثرات ہوسکتے ہیں اور مصر میں حکومت کا خاتمہ اردن کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے اور پھر یہ کہ اردن کے ساتھ بھی ہمارا امن کا ایک معاہدہ موجودہے۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے اور مشرق وسطی میں سٹرٹیجک نوعیت کی کوئی تبدیلی رونماہوتی ہے تو وہ اسرائیلی ریاست کے حق میں نہیں ہوگی۔
اگرچہ مصراور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کو اکثراوقات ایک ’سرد معاہدہ‘ کہاجاتا ہے ، بن مناشم کہتے ہیں کہ اسرائیل صدر حسنی مبارک کے ساتھ اپنے تعلقات کی قدر کرتا ہے اورانہیں اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان ایک پل کے طورپر دیکھتا ہے۔