مصر کی سڑکوں پر احتجاج کرنے والے لاکھوں مظاہرین کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ صدر حسنی مبارک اقتدار چھوڑ دیں۔ ان مظاہروں میں اقوام متحدہ کے مطابق اب تک تین سو افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور اکثر شہر اور قصبے بدامنی کا منظر پیش کررہے ہیں۔ زیادہ تر سرکاری اور کاروباری ادارے بند پڑے ہیں اور لوگ سڑکوں پر حسنی مبارک سے چلے جانے کا کہہ رہے ہیں مگر وہ اقتدار چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں۔
عوام کی طرف سے تبدیلی کے مطالبوں کے بعد نئی کابینہ نے حلف لے لیا ہے۔ مگر اس کابینہ کے زیادہ تر اراکین صدر مبارک کے پرانے ساتھی ہیں۔ مظاہرین نے کابینہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔مصر کے عوام تبدیلی کے ساتھ نئے چہرے دیکھنا چاہتے ہیں ۔ بہت سے لوگ عالمی ادارہ برائے ایٹمی تونائی کے سابق سربراہ اور امن کے لیے نوبل انعام یافتہ محمد مصطفیٍ البرادعی کی حمایت کر رہے ہیں۔ جن کا مطالبہ ہے کہ صدر حسنی مبارک کو حکومت چھوڑنی ہو گی کیونکہ اسی صورت میں آزاد انتخابات کا انعقاد ہو گا ، پھر ایک نیا آئین اور اس کے بعد ہی مصر جمہوریت کی طرف بڑھے گا۔
محمد البرادی ملک سے آمریت کے خاتمے کی اس تحریک کا حصہ تو بن گئے ہیں مگر مبصرین کے مطابق اس تحریک کا لیڈر کوئی نہیں اور یہی پہلو تشویش ناک ہے کہ اگر نئی حکومت آتی ہے تو اسے چلائے گا کون۔
ایلیٹ ابرامز کا تعلق کونسل آن فارن ریلیشنز سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی نہیں جانتا کہ مصر میں آئندہ کیا ہو گا کیونکہ صدر مبارک نے 30 سال سے لبرل اور آزاد خیال اپوزیشن کو ، جو ان کی حکومت کے لیے چیلنج ہو سکتی تھی دبائے رکھا۔ درحقیقت انہوں نے آزاد خیال جماعتوں کو اخوان ال مسلمین کے مقابلے میں زیادہ شدت سے کمزور کیا۔
اخوان ال مسلمین کو قدامت پسند مذہبی جماعت تصور کیا جاتا ہے اور صدر حسنی مبارک گزشتہ 30 سال سے مغرب اور امریکہ کو یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے کہ اگر وہ اقتدار میں نہ رہے تو مصر کی حکومت اخوان ال مسلمین کے ہاتھ میں ہوگی۔
ایلیٹ ابرامز کہتے ہیں کہ صدر اوباما کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ امریکہ انسانی حقوق، آزادی اور جمہوریت کی حمایت کرے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ صدر اوباما مشرقِ وسطی میں جمہوریت کی بات نہیں کرتے ، وہ حکومت کو بہتر کرنے کی بات کرتے ہیں۔صدر اوباما کو مصر ی حکومت کو یہ مشورہ دینا چاہیے کہ اس مسئلے کو طاقت کے استعمال سے حل نہیں کیا جا سکتا ۔ اگر مصر کے عوام یہ تہیہ کر چکے ہیں کہ انہیں حسنی مبارک کی حکومت ختم کرنا ہے تو امریکہ کو مصر ی عوام سے یہ اپیل کرنی چاہیے کہ یہ تبدیلی پرامن ہو۔ کیونکہ اس موقع پر امریکہ کی صدر مبارک کے لیے حمایت مصر میں امریکہ مخالف جذبات بھڑکا سکتی ہے۔
مشرقِ وسطی کے حالات پر قریبی نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ آمریت اور غربت کے خلاف تیونس سے شروع ہونے والی یہ جدوجہد جو بہت کم دنوں میں مصر، یمن اور اردن تک پہنچ چکی ہے ۔ اسے روکنا بہت مشکل ہو گا۔