تیس سال سے مصر کی صدارت پر فائز حسنی مبارک 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران مصری فضائیہ کے سربراہ تھے ۔ مصری معاشرے اور سیاست پر نظر رکھنے والے ایک عرصے تک انہیں مصر میں استحکام کی علامت سمجھتے رہے ہیں ۔لیکن گزشتہ تقریبا دو ہفتوں سے مصر میں جاری ہنگامی حالت نے اس تاثر کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ دوسری طرف حزب اختلاف کی آواز بن کر سامنے آنے والے محمد البرادعی ، عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سابق سربراہ کے طور پر دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں ، لیکن کیاوہ مصرکی سیاسی بیداری کو کوئی بامعنی رخ دینے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر واشنگٹن میں ہر پہلو سے غور کیا جا رہا ہے۔
1981ء میں ایک فوجی پریڈ کے دوران اس وقت کے مصری صدر انور سادات کے قتل کا واقعہ اس وقت کے نائب صدر حسنی مبارک نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ قاہرہ میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے بیورو چیف ڈیوڈ اوٹاوےبھی وہیں موجود تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ انور سادات کے قتل کے وقت میں پریڈ دیکھنے والوں میں شامل تھا۔ میں نے مبارک کو کرسیوں کے ڈھیر سے اٹھتے اور اپنے ہیٹ سے مٹی جھاڑتے دیکھا ،جیسے انہیں سمجھ نہیں آرہا تھاکہ ہوا کیا ہے۔
آٹھ سال بعد حسنی مبارک نے مصر کے صدرکی حیثیت سے حلف اٹھالیا۔ ڈیوڈ اوٹاوے کے مطابق حسنی مبارک ایک ٕسخت مزاج انسان تھے اور انہیں غیر ملکی میڈیا سے اچھے تعلقات بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
اوٹاوے کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سے خاموش مزاج تھے ۔ ان کے جوابات مبہم ہوتے تھے ۔ آپ کو کبھی پوری طرح سمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ کہنا کیا چاہتے ہیں ۔ اپنے ملک کے لئے سوائے استحکام کے ان کے پاس کوئی منصوبہ نہیں تھا۔
30 برسوں کے دوران مصر زیادہ تر پر سکون ہی رہا ۔ اندرون ملک مخالفت کے باوجود مصر اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ بھی کامیاب ثابت ہوا۔
اسرائیل سے امن معاہدہ کرنے پر مصر کو شروع میں اپنے عرب پڑوسیوں کی حقارت کا سامنا کرنا پڑا ۔ حسنی مبارک کی حکومت نے اسرائیل فلسطین امن عمل آگے بڑھانے میں بھی کردار ادا کیا اور مصر امریکہ کا قریبی اتحادی بھی تھا۔مگر کئی لوگوں کے مطابق مصر میں استحکام کے لئے ادا کی گئی قیمت بہت بھاری تھی۔ جس میں حکومت وقت کی مخالف آوازوں کو خاموش کرانے کا رواج عام تھا ۔ صدر حسنی مبارک کی سیکیورٹی سخت تھی مگر ان پر کئی قاتلانہ حملے ہوئے۔
گزشتہ سال مصر کے پارلیمانی انتخابات میں حسنی مبارک کی نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی نےکامیابی حاصل کی مگراس پر ووٹروں کو ہراساں کرنے اور جعلی ووٹ ڈالنے کے الزامات بھی لگے ۔ایک طرف حزب اختلاف کی جماعت اخوان المسلمین کے اراکین کو گرفتاریوں اور طویل قید کا سامنا کرنا پڑا اور دوسری طرف مصرکے امیر اور غریب طبقے کے درمیان فرق کی خلیج گہری ہوتی گئی۔
تیونس میں سیاسی تبدیلی کی لہر نے مصری عوام کو بھی متاثر کیا ۔اور پچیس جنوری سے شروع ہونےو الے ہنگامے مصر کی سیاست میں کسی بڑی تبدیلی کی علامت بن کر سامنے آئے ہیں۔
دوسری طرف69 سالہ سابق سفارتکار محمد البرادعی جو1997ء سے 2009ء تک عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ تھے ، ایران کے ایٹمی پروگرام پر اپنے نرم رویے کی وجہ سے امریکہ کی زیادہ حمایت کبھی حاصل نہیں کر سکے۔
امریکی تھنک ٹینک واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے اسکاٹ کارپنٹر کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو پسند نہیں کرتے ، وہ اسرائیل کو بھی پسند نہیں کرتے۔
اب جبکہ البرادعی مصر میں حزب اختلاف کی آواز بن کر ابھرنے کی کوشش کر رہے ہیں ،مصری عوام کی ایک بڑی تعدادانہیں باہر کا آدمی سمجھتی ہے۔ ایک ایسا امیر سفارتکار جس نے گزشتہ 30سال کا زیادہ عرصہ نیویارک اور ویانا میں گزارا ہے اور جسکا مصر کی اس غریب آبادی سے کوئی رشتہ نہیں ، جو اس وقت قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں کسی انقلاب کی امید پر حکومت کے حامیوں کا تشدد برداشت کر رہی ہے۔
ولیم ڈابسن کہتے ہیں کہ پچھلے سال ہونےو الے پارلیمانی انتخابات میں البرادی نے اخوان المسلمین کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے ۔ اس لئے ان کے درمیان اب بھی کوئی مضبوط رشتہ نہیں ہے ۔ دونوں فریقوں کو ابھی یہ آسان لگ رہا ہے مگر یہ کبھی بھی ٹوٹ سکتا ہے۔
مصر میں آنے والی تبدیلی کو کوئی واضح سمت دینے والی شخصیت کون ہوگی ، ابھی واشنگٹن کے ماہرین اس بارے میں کسی پیشگوئی سے گریز ہی کررہے ہیں۔