غلط فہمیاں تھیں یا نفرتیں؟ ظالم کون تھا، مظلوم کون؟ تحقیقات، الزامات، ٹریبیونل، کمیشن، کتابیں، لٹریچر، چالیس بیالیس سالوں میں سوال حل کیوں نہ ہوئے؟
’’چیلنج تب پیدا ہوتا ہے ۔ جب لوگ اچھا مسلمان بننے کی اہمیت پہچان لیتے ہیں ، اور پھر انہیں پتہ چلتا ہے کہ اچھا مسلمان بننے کے طریقے ایک سے زیادہ ہیں ۔ پھر انہیں یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ وہ کیسے اپنی کمیونٹی کو ویسا مسلمان بنائیں ، جیسے وہ خود ہیں ۔ اور جب ہر شخص اپنے انداز کا اسلام معاشرے پر لاگو کرنے کا سوچتا ہے ، تو ایک اسلام کئی حصوں میں خود بخود بٹ جاتا ہے ۔ یہی پاکستان کا چیلنج ہے ۔ ‘‘۔۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ اس آدھی پونی معلومات سے ، جو کسی فیس بک، ٹمبلر، ٹویٹر یا کسی تیسرے ، چوتھے ذریعے سے ہم تک پہنچی ہیں ،ہم نے ہر موضوع ، ہر مسئلے اور ہر دوست دشمن کے بارے میں ایک رائے قائم کر لی ہے اور یہ گمان بھی رکھتے ہیں کہ جو ہم جانتے ہیں ، وہی سچ ہے۔
پاکستان کی کہانی کے کچھ گمشدہ سرے ڈھونڈنے کی کوشش اور ماہرین کا یہ دعویٰ کہ کسی ملک کی تعلیمی پالیسی کے اثرات 20سال بعد ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں۔
وہ کون سا جذبہ ہے ،جو اپنے ہم خیالوں کو دوست اور اختلاف کرنے والوں کا سر تن سے جدا کرنے سے کم کسی چیز پر راضی ہی نہیں ہوتا؟۔۔۔ کہیں ہمارا اصل مسئلہ دوسروں کو برداشت نہ کرنے کاہی تو نہیں ۔؟ کیوں ہم اپنی مرضی کا نظریہ ہی دوسروں پر تھوپنا چاہتے ہیں؟
2013ء کے پاکستان کی ٹائم لائن پر کوئٹہ دھماکے، عباس ٹاؤن، جوزف کالونی اور پروین رحمان کے خون کے چھینٹے دور دور تک پھیلے ہیں۔ پاکستان کا عام آدمی نامعلوم سمت سے آنے والی گولیوں کے سامنے سینہ سپر سموسے تل رہا ہے، سامان ڈھو رہا ہے، صبح سے شام کررہا ہے۔۔ میں 24 گھنٹے پاکستان کے نام پر غور کر رہی ہوں۔
ملک کے سب سے بڑے تجارتی شہر کی رہائشی عمارتوں میں گھر بیٹھے مار دیئے گئے بے گناہ پاکستانیوں کے بے جان جسم ایدھی اور چھیپا کی سفید چادروں میں لپٹے پڑے ہیں اور میں سوچ رہی ہوں کہ عاصم بیگ کے خوابوں اور اس کے ملک کی حقیقتوں کے درمیان یہ جو بلیک ہول بڑا ہو رہا ہے، اسے بھرنے کا طریقہ کون ایجاد کرے گا ؟
ہر روز صبح اٹھ کر وہ اپنے نقلی ہاتھوں کو کسی زرہ بکتر کی طرح کہنی سے آگے ختم ہو جانے والے بازووں پر باندھتی ہوگی۔۔ پھرتیز رفتار معاشرے کے ٹھنڈے یخ سمندر میں اپنے نہ ٹوٹنے والے ارادوں کے ساتھ اترتی ہوگی، جہاں صحت مند ہاتھ پیر والے لاکھوں انسان ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں اندھا دھند تیر رہے ہیں۔ کسی کے پاس پیچھے مڑ کر دیکھنے کی فرصت ہے؟
زندگی بہت مختلف ہو گئی ہے ۔ ایسا لگتا ہے پچھلے سال میں جیسے کسی خواب میں تھی۔ مجھے اپنے ملک، اپنے شہر سے پیار ہے لیکن اسے کئی سماجی، سیاسی اور شہری تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔۔۔ بلوچی زبان میں کتاب لکھنے والی گوادر کی مریم سلیمان کہتی ہیں، ’’امریکہ نے مسائل کا حل تو بتایا، یہ نہیں بتایا ان کا سامنا کیسے کرنا ہے۔‘‘
ہماری آج کی دنیا کا سچ تو بس اتنا ہی ہے ناں !!۔۔کل کوئی نیا واقعہ پیش آئے گا۔ اورلوگ ماؤنٹ الزبتھ سنگاپور میں مرنے والی لڑکی کو بھول کر،موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے والے کسی نئے کردار کا تماشہ دیکھنے کے لئے کوئی نیا میلہ تلاش کر لیں گے ۔
یہ طلبا جن امریکی گھرانوں کے ساتھ ٹھہرتے ہیں انہیں خوب جانچ پڑتال کے بعد منتخب کیا جاتا ہے۔ پہلے یہ یقین کیا جاتا ہےکہ وہ اپنے گھر میں کسی طالب علم کی میزبانی کسی غلط مقصد سے نہیں کرنا چاہتے، طلبا ان کے گھر محفوظ رہیں گے اور ان کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ تو نہیں
فل برائٹ سکالرشپ پر جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والے آصف میمن پاکستان اور اس کے اہم مسائل پر کیا کہتے ہیں؟
مزید لوڈ کریں