مصر میں جہاں شدید عوامی مظاہروں کے بعد صدر حسنی مبارک کو اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا تھا، صورت حال بتدریج معمول پر آرہی ہے۔ تبدیلی کی اس لہر کے دوران وہاں معیشت کے بہت سے مختلف شعبے بری طرح متاثر ہوئے جن میں ایک اہم شعبہ سیاحت کا بھی ہے۔مصر کے قدیم تاریخی مقامات اور ساحلی تفریحی گاہیں اب بھی سیاحوں کی منتظر ہیں۔
مصر مشرق وسطی ٰ کے ان ممالک میں سے ہے جس کی معیشت کا انحصار تیل پر نہیں ہے۔ اس کی آمدنی کا تقریبا گیارہ فیصد انحصار سیاحت پر ہے۔ جب سے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا اور حالات بگڑنے لگے تو اس کا براہ راست اثر سیاحت کے شعبے پر پڑا۔
صدر حسنی مبارک کے جانے کے بعد ابھی تک سیاحت کا شعبہ پوری طرح بحال نہیں ہوسکا ہے ۔ اور اس سے منسلک بہت سے افراد ابھی تک اپنے کام پر واپس نہیں آئے۔
امریکہ بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں سے سیاح قدیم تاریخ سے تعلق رکھنے والی باقیات کا مشاہدہ کرنے مصر جایا کرتے تھے ۔ مگر وہ ابھی وہاں جانے سے خوف محسوس کرتے ہیں۔
ڈیوڈ وین ہیٹن کا تعلق لوگوں کو سیاحت کی غرض سے لوگوں دنیا کے مختلف علاقوں میں بھیجنے والی ایک کمپنی سے ہے۔ ان کی کمپنی کے ذریعے زیادہ تر غوطہ خور مصر میں واقع ریڈ سی کے لیے جاتے ہیں۔ کیونکہ کئی آبی جانور ایسے ہیں جو ریڈ سی کے علاوہ دنیا میں کہیں اور نہیں پائے جاتے۔
ہیٹن کہتے ہیں کہ ہم غوطہ خوری کے لیے مصر جانے والوں کو اپنے ٹوئر میں تاریخی مقامات کی سیر بھی کراتے ہیں۔ مگر اس بار جب ہمارا ایک ٹوئر وہاں جانے کے لیے تیار ہواتو وہاں کے حالات بگڑ گئے ، حتی کہ وہاں کا ہوائی اڈا بھی بند ہوگیا اور ہمیں اپنا ٹوئر مصر کی بجائے کسی دوسرے ملک میں بھیجنا پڑا۔
وہ کہتے ہیں کہ واشنگٹن اور اس کے مضافات میں اکثر لوگ سرکاری ملازمتیں کرتے ہیں اور انہی میں سے کچھ لوگ ہمارے ٹوئر پر جاتے ہیں۔ مگر حالات خراب ہونے پر امریکی حکومت نے اپنے شہریوں کو وہاں جانے سے منع کردیا۔
حال ہی میں مصر کے سیاحت کے حکام نے ان خدشات کا اظہار کیا خراب صورتحال کی وجہ سے ان کے ہاں آنے والے زیادہ تر سیاح ترکی، اسرائیل اور متحدہ عرب عمارات جیسے ممالک کا رخ کرنے لگیں گے۔
امریکہ جیسے ممالک کےسیاح بھی اب مصر جانے سے ہچکچا رہے ہیں۔ ہیٹن کا کہناہے کہ مصر کے حالات سے ہمارا مالی نقصان ہوا ہے۔ تاہم ہم مصر واپس جانا چاہیں گے مگر حالات بہتر ہونے کے بعد۔ لیکن میرا نہیں خیال کہ تین سے پانچ سال تک یہاں کے سیاح مصر کارخ کریں۔
ماہرین اب یہ دیکھ رہے ہیں کہ مستقبل میں مصر جانے والے سیاحوں کی ترجیح اب مشرق وسطیٰ کے کون سے ممالک ہوں گے۔