رسائی کے لنکس

مصر کی صورت حال کے مشرق وسطیٰ امن مذاکرات پر ممکنہ اثرات


مصر کی صورت حال کے مشرق وسطیٰ امن مذاکرات پر ممکنہ اثرات
مصر کی صورت حال کے مشرق وسطیٰ امن مذاکرات پر ممکنہ اثرات

20جنوری2009 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے چند ہی روز بعد صدر براک اوباما نے سابق سینیٹر جارج مچل کو مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی مندوب نامزد کیا۔ مچل اس سے پہلے شمالی آئر لینڈ میں 1998 کے ’کڈ فرائیڈے اکارڈ‘کے مذاکرات میں مدد دے چکے تھے۔ ان کے تقرر کو اس بات کی علامت سمجھا گیا کہ امریکہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع کرانے میں سنجیدہ ہے۔

مسٹر مچل کے تقرر کے دو برس بعد تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امن کے عمل میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔ فواز گیرگز لندن اسکول آف اکنامکس سے وابستہ ہیں۔’’اب کوئی امن کا عمل باقی نہیں ہے۔ امن کا عمل ختم ہو چکا اور ہم جانتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔ ہمیں دو ٹوک بات کرنی چاہیئے۔ صدر براک اوباما نے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو ایک جامع امن سمجھوتے پر آمادہ کرنے کے لیے اپنا کافی سیاسی اثر و رسوخ استعمال کیا۔ ہمیں لگی لپٹی رکھے بغیر صاف بات کرنی چاہیئے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں بستیوں کی تعمیر روکنے پر تیار نہیں ہے‘‘۔

محمود عباس کی قیادت میں فلسطینی اتھارٹی نے صاف طور سے کہہ دیا ہے کہ جب تک اسرائیل مقبوضہ علاقے میں بستیاں تعمیر کرتا رہے گا، وہ اس کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گی۔ سابق نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر برینٹ سکوکروفٹ کہتے ہیں کہ دونوں فریق ہٹ دھرمی سے کام لے رہے ہیں۔ ’’جہاں تک اسرائِیل کا تعلق ہے، وہ بستیوں کی تعمیر روکنے پر تیار نہیں ہے جو دومملکتوں کی بنیاد پر مسئلے کے حل کے لیے خطرہ ہیں۔ دوسری طرف عربوں میں دو مملکتوں کی بنیاد پر حل کو ترک کرنے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے جو اسرائیل کے لیے تباہ کن ہو گا‘‘۔

بہت سے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مصر میں موجودہ ہنگاموں کا مشرق وسطیٰ کے امن کے عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ڈینیل کرٹیز مصر اور اسرائیل دونوں ملکوں میں امریکہ کے سفیر رہ چکے ہیں۔ ’’امن کا عمل مصر میں ہنگاموں سے پہلے ہی کسی حد تک بحران کا شکار ہو چکا تھا۔ امریکی انتظامیہ دو برس سے مذاکرات میں جان ڈالنے کی کوشش کررہی ہے اور اسے کوئی کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ میرے خیال میں اس وقت مصر کے واقعات سے امن کے عمل میں درپیش مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ ان واقعات سے یقیناً امن کے مذاکرات عنقریب شروع کرنے میں کوئی مدد نہیں ملے گی‘‘۔

امریکی محکمہ خارجہ کے سابق عہدے دار ایرون ڈیوڈ ملر جو آج کل وڈورڈ ولسن انٹرنیشنل سینٹر فار اسکالرسے وابستہ ہیں کہتے ہیں کہ ایک لحاظ سے مصر کے واقعات سےصدر اوباما کو مدد ملی ہے۔’’ ایک لحاظ سے مصر کے واقعات سے کم از کم کچھ عرصے کے لیے انتظامیہ کی جان بچ گئی ہے کیوں کہ انہیں امن کے عمل کے لیئے کوئی اسٹریٹجی بنانے کی فکر نہیں ہے۔ امن کا عمل تعطل کا شکار ہو گیا ہے اور فی الحال اوباما انتظامیہ اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتی یا کچھ کرنے کو تیار نہیں ہے‘‘۔

جہاں تک اسرائیلی مصری تعلقات کا سوال ہے فواز گیرگیز جیسے ماہرین کہتے ہیں کہ اسرائیلیوں کو یہ تشویش ضرور ہو گی کہ مصر میں صدر حسنی مبارک کی جگہ کس قسم کی حکومت بر سر اقتدار آئے گی اور کیا وہ 1979 کے امن سمجھوتے کی پابندی کرے گی جس پر دونوں ملکوں نے دستخط کیے تھے’’ اگر میں اس معاملے کو اسرائیل کے نقطہ نظر سے دیکھوں تو مصر کے ڈرامے سے جو بنیادی سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ جب تک اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان اور اسرائیل اور اس کے عرب ہمسایوں کے درمیان کوئی امن سمجھوتہ نہیں ہوتا اسرائیل خود کو کبھی محفوظ نہیں سمجھے گا۔ یعنی یہ کہ کسی ایک فرد پر انحصار سے یعنی مبارک پر یا مرحوم صدر انور سادات پر انحصار سے اسرائیل کی سیکورٹی طویل مدت کے بجائے صرف کم مدت کے لیے ہوگی‘‘۔

بنیادی بات یہ ہے کہ بہت سے ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس ہنگامے کے نتیجے میں جو بھی حکومت بر سرِ اقتدار آئےمصر 1979 کے اسرائیلی مصری امن سمجھوتے کی پابندی کرے گا۔

XS
SM
MD
LG