سن 2011کے آغاز کے ساتھ ہی عرب دنیا میں تبدیلیوں کا موسم شروع ہو گیا۔ تبدیلی کے لیے عوام جب بھر پور قوت ارادی کے ساتھ سڑکوں پر نکلے تو کئی عشروں سے اقتدار پر قابض حکمرانوں کو حکومت سےالگ ہونا پڑا۔ اور مغربی دنیا میں ان خدشات نے جنم لیا کہ اس تبدیلی کے نتیجے میں انتہا پسند عناصراقتدار میں نہ آ جائیں مگرعرب دنیا سیاسی کی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ مسلم دنیا کی سیاسی جماعتوں میں مذہب کا رنگ ایک حقیقت ہیں ، اور ان جماعتوں کو مستقبل کے سیاسی نظاموں سے باہر نہیں رکھا جا سکتا۔
ماہرین ٕتیونس اور مصر میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں کا سہرا وہاں کے عوام کے سر باندھتے ہیں جبکہ یمن، بحرین اور شام میں بھی سیاسی تبدیلی کے لئے اب تک عوام ہی اپنی جانیں دےرہے ہیں۔ماہرین کے مطابق امریکہ اور مغربی ممالک لیبیا میں معمر قدافی کے ٕمخالفین کی حمایت اس وقت کرنے آئے جب لیبیائی عوام کی طرف سے حکومت کے خلاف ایک بھرپور مہم کا آغاز ہو چکا تھا ۔امریکی تھنک ٹینک ووڈرو ولسن میں عرب دنیا میں تبدیلیوں اور امریکی پالیسی کے حوالے سے ایک مذاکرے کے دوران امریکی سکالر آرون ڈیوڈ ملرکا کہنا تھاکہ امریکہ عرب دنیا میں آنے والی تبدیلیوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتا ۔
مشرق وسطیٰ میں سیاسی تبدیلیوں کا اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے پر کیا اثر ہوگا ، یہ وہ سوال ہے جو واشنگٹن کے تحقیقی اداروں میں تواتر سے زیر بحث آتا ہے۔ سابق سفارتکار اور کارنیگی انڈاؤمنٹ سے منسلک مروان معاشر کہتے ہیںٕ کہ اسرائیل اورفلسطین تنازعہ حل کرنے کا سب سے بہتریں وقت اب ہی ہے ۔ ان کا کہناہے کہ اگر ہم اب اسرائیل کے قبضے کا خاتمہ کرنے کے لئے کچھ نہیں کرتے اور دو ریاستی حل یا ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف نہیں بڑھتے تو پھر ا س مسئلے کے حل کا وقت نکل جائے گا۔
آرون کا خیال ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے ستمبر میں فلسطینی ریاست کی حمایت میں قرارداد منظور کرنے سےسوائے کچھ مظاہروں کے کچھ خاص تبدیلی نہیں آئے گی۔اور اس سے دوریاستی حل نکلتا نظر نہیں آتا۔وہ کہتے ہیں کہ مذاکرات ہی مسئلے کا واحد حل ہیں ۔