پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان مشرق وسطیٰ کے دو حریف ممالک ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کم کرانے کے لیے سفارتی کوششوں کا آغاز کر چکے ہیں۔
اس سلسلے میں وزیراعظم عمران خان نے اتوار کے روز تہران میں ایرانی قیادت سے ملاقات کی۔ جبکہ عنقریب وہ سعودی قیادت سے بات چیت کے لیے ریاض بھی جائیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان نے خطے میں کشیدگی کم کرانے کی کوششوں کا آغاز ایک ایسے وقت میں کیا ہے۔ جب مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور ایران کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر امریکہ اور ایران کے تعلقات بھی نہایت کشیدہ ہیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان یہ کہہ چکے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کی کشیدگی نہایت پیچیدہ اور مشکل معاملہ ہے۔ جس کا جاری رہنا ان کے بقول کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔
عمران خان کے بقول وہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاملات کو بہتر کرنے کے لیے مصالحانہ کردار ادا کرنے کے خواہاں ہیں۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب ایران کشیدگی تاریخی طور نہایت پیچیدہ معاملہ ہے۔ جبکہ عمران خان کی سفارتی کوششوں کے باوجود اس معاملہ کو حل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔
'کشیدگی فریقین سمیت پاکستان کے مفاد میں بھی نہیں'
پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں کشیدگی فریقین سمیت پاکستان کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی کوشش ہے کہ خطے میں کشیدگی کوئی غیر معمولی صورت حال اختیار نہ کرلے۔
اعزاز چوہدری کے بقول ریاض اور تہران کے اسلام آباد سے اچھے تعلقات ہونے کی وجہ سے پاکستان، دونوں ممالک میں کشیدگی کم کرانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
اعزاز چوہدری کا مزید کہنا ہے کہ اس وقت مشرق وسطیٰ کے دو حریف ممالک کے درمیان مصالحت کے لیے ماحول ساز گار ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ماحول ایسا بن گیا ہے۔ جس میں سب کو اس بات کا ادراک ہے کہ کشیدگی میں اضافہ کسی کے مفاد میں نہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ سب کے لیے نقصادن دہ ہو گا۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ امریکہ سمیت تمام فریقین چاہتے ہیں کہ ماحول پر امن ہو اور کشیدگی کا کوئی حل نکلے۔
ان کے بقول تینوں ممالک سعودی عرب، ایران اور امریکہ کے ساتھ پاکستان کے اچھے تعلقات ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان مصالحت کرانے کے لحاظ سے موزوں ترین ملک ہے۔
'کردار اسی ملک کا ہو سکتا ہے جو اثر و رسوخ رکھتا ہو'
تجزیہ کار اور صحافی زاہد حسین کا کہنا ہے کہ خطے میں کشیدگی کم کرانے میں کردار اسی ملک کا ہو سکتا ہے جو خطے میں اثر و رسوخ رکھتا ہے۔
زاہد حسین کا کہنا تھا کہ پہلے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ وہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کروائیں گے۔ لیکن اب و ہ یہ کہہ رہے ہیں کہ مصالحانہ کردار ادا کریں گے۔
زاہد حسین کے بقول ایران اور سعودی عرب کے درمیان تنازعات بہت پیچیدہ اور تاریخی نوعیت کے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران میں کشیدگی کم کرانا اتنا آسان نہیں ہے۔
زاہد حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا ایسا اثر و رسوخ نہیں جو ان دو ممالک کے معاملات میں نتیجہ خیز ثابت ہو سکے۔ ریاض اور تہران کے معاملات اتنی آسانی کے ساتھ طے نہیں ہو سکتے۔
اگرچہ سعودی عرب اور ایران کے طرف سے اس بات کا عندیہ دیا گیا ہے کہ وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ لیکن زاہد حسین کے بقول یہ واضح نہیں کہ یہ بات چیت کتنی بامعنی ہو سکتی ہے۔
زاہد حسن کا کہنا ہے کہ امریکہ اور ایران میں کشیدگی کا معاملہ بھی اتنا آسان نہیں۔ تہران اپنا مؤقف واضح کر چکا ہے کہ پابندیاں ہٹائے بغیر وہ واشنگٹن سے مذاکرات کرنے پر تیار نہیں ہے۔
زاہد حسین کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک کی کوششوں کے باوجود نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر ایران اور امریکہ کے صدور کی ملاقات نہیں ہو سکی تھی۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ یمن کے معاملے میں پاکستان مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ ایران اور سعودی عرب دونوں یمن معاملے کے حل کے خواہاں ہیں۔
تجزیہ کار زاہد حسین کے بقول یمن میں اسی صورت میں کوئی پیش رفت ہو سکتی ہے جب وہاں فوجی کارروائیوں میں کمی آئے۔